فائدہ؟ لیکن یہ حدیث ظاہر ہے کہ حسنات کے لکھنے کے تو منافی نہیں،کیونکہ اس میں بس سیئات کے خیالات کو معاف کر نے کا ذکر ہے۔ رہا ان کا لکھا جانا، تو حدیثِ سابق سے اس کی وضاحت ہوتی ہے کہ انھیں اس کی اجازت نہیں،بلکہ جس حدیث میں دل کے خیالات کو معاف کرنے کا ذکر ہے، اس سے مراد وہ وساوس وخطرات ہیں جو لوحِ قلب پر بغیر قصد وارادہ کے آتے جاتے ہیں، اور ایسے ہی غیر اختیاری خیالات کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہے۔اللہ گنے جب حسبِ ذیل آیت نازل فرمائی: ﴿لِّلَّہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہٗ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّہُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنَّ یَشَآئُ وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ ( البقرۃ:۲۸۴) ’’اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے اگر تم اس کو ظاہر کردویا اسے چھپائے رکھو، اللہ بہر حال تم سے اس کا حساب لے گا، پھر جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا،اوراللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سخت گھبرائے کہ اگر غیر اختیاری خیالات پر بھی مؤاخذہ ہوا تو کون نجات پائے گا ،دل تو ہمارے ہاتھ میں نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس کی اطاعت کا عزم کرو اور کہو﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾کہ ہم نے حکم سن لیا اور تعمیل کی۔ صحابۂ کرا م رضی اللہ عنہم نے یوں ہی کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ آیت نازل فرمائی: ﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا﴾ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زائد تکلیف نہیں دیتا۔ اس پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مطمئن ہو گئے۔ یہ روایت مختلف طرق سے صحیح مسلم، مسند امام احمد وغیرہ کتب میں منقول ہے اور حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ اور دیگر مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے، اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے۔ بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس آیت میں’’حساب‘‘ لینے کا ذکر ہے جبکہ حساب اور عقاب میں فرق ہے۔ حساب میں اگر مناقشہ نہ ہو تو اس میں عذاب کا پہلو نہیں۔ |