Maktaba Wahhabi

102 - 190
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابُ ھَلَکَ کہ جس کے حساب کا مناقشہ ہوا وہ ہلاک ہو گیا ۔(بخاری:رقم ۴۹۳۹) اور ایک حساب کی صورت محض پیش کرنے اور یاد دلانے کی ہے، مؤمنوں کے ساتھ تو یہی حساب ہو گااور اسی کو قرآن مجید میں حساب یسیر سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو علیم بذات الصدور ہے انھیں یاد دلا کے معاف فرما دیں گے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ فرشتے صرف انسان کے قول وفعل کو ہی نہیں لکھتے، نیک ارادہ اور قصد کو بھی لکھتے ہیں اور یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ بُرے ارادہ کو وہ شمار وقطار کے لیے نہیں لکھتے ،بلکہ انسان اگر اس کواللہ کے ڈر سے چھوڑ دیتا ہے تو فرشتے ایک نیکی لکھ لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فرشتے صرف وہی عمل لکھتے ہیں جو خیراور شر پر مبنی ہو ہر بول نہیں لکھتے ۔(حاکم وصححہ وغیرہ)جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول یوں منقول ہے کہ فرشتے پہلے توہر بول اور ہر کلمہ لکھتے ہیں ،مگر ہفتہ میں جمعرات کے دن ان نوشتوں پر نظر ثانی کی جاتی ہے، جن میں ثواب یا عقاب ہو انھیں باقی رہنے دیتے ہیں اور باقی کو محوکر دیتے ہیں ۔ اور وہ فرماتے تھے کہ قرآنِ مجیدمیں ﴿یَمْحُوْا اللّٰہٗ مَا یَشَآئُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتَابِ﴾ کا یہ بھی مفہوم ہے (ابنِ کثیر) اس قول سے اس اختلاف میں توفیق وتطبیق ہو جاتی ہے، اور جو حضرات فرماتے ہیں کہ جو قول ثواب وعقاب پر مبنی نہ ہو وہ نہیں لکھا جاتا،وہ فرماتے ہیں کہ قرآنِ مجیدکے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات کسی چیز کی ظاہر نعت وتعریف محذوف ہوتی ہے، جیسے ﴿وَکَانَ وَرَآئَ ہُمْ مَّلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْباً﴾ (الکھف:۷۹) ’’کہ ان کے پیچھے بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو چھین لیتا تھا ۔‘‘ظاہر ہے یہاں ہر کشتی نہیں،بلکہ وہی کشتی مراد ہے جو صحیح، درست اور قابلِ استعمال تھی۔ اسی طرح یہاں گو﴿مَا یَلْفِظُ ﴾ ہر لفظ کو شامل ہے ،مگر مقصود وہی لفظ و عمل ہے جو جزا اور سزا سے وابستہ ہے، لیکن یہ بات تو اپنی جگہ درست اور حقیقت ہے کہ انسان کو بے فائدہ اور لایعنی قول وعمل کی اجازت نہیں اس کی زندگی بامقصد ہونی چاہیے، بے مقصد نہیں۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کر آئے ہیں۔
Flag Counter