Maktaba Wahhabi

103 - 190
یہاں یہ بات پیشِ نگاہ رہنی چاہیے کہ آیت میں زبان کے بول اور لفظ کو لکھنے کا ذکر کرنے سے زبان کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان بسااوقات ایساکلمۂ خیر بولتا ہے جس سے اللہ راضی ہو جاتا ہے، مگر انسان اسے معمولی سمجھتا ہے، اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کا اجر وثواب کس قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی رضا قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی کلمہ معمولی سمجھ کر اللہ کی ناراضی کا بولتا ہے،اسے گمان نہیں ہوتا کہ اس کا وبال کس قدر ہے، اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے لیے اپنی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں۔( احمد،ترمذی:رقم ۲۳۱۹ وحسنہ وصححہ وابنِ ماجہ ،ابنِ کثیر)حضرت علقمہ رحمہ اللہ جو یہ حدیث حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، فرمایا کرتے تھے کہ اس حدیث نے بہت سی باتیں کرنے سے روک دیا ہے۔ زبان کا ایک بول انسان کی عزت وقار کا باعث بنتا ہے ،جبکہ ایک بول اسے ذلت ورسوائی کی پسپائی میں دھکیل دیتا ہے۔زبان کی اسی اہمیت وحیثیت کی بنا پر، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے جسم کے باقی اعضاء ہر روز صبح اس کے سامنے عاجزی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر، اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ وابستہ ہیں،اگر تو درست رہے گی ہم بھی درست رہیں گے۔ اگر تو کج رو ہو گی تو ہم بھی کج رو ہو جائیں گے۔(ترمذی:رقم ۲۴۰۷ حسن وصححہ ابن خزیمہ) زبان کی حفاظت کے بارے میں بہت سی احادیث مبارکہ کتب احادیث میں موجود ہیں جن کا استیعاب مشکل بھی اور اطناب کا باعث بھی۔ شائقین الترغیب والترہیب (ص ۵۲۱، ۵۴۳ ج۳) ملاحظہ فرمائیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ’’کلام ‘‘انسان کا قیدی ہے اور جب یہ زبان سے نکلتا ہے تو انسان اس کا قیدی بن جاتا ہے۔ زبان کی دو بڑی آفتیں ہیں،ایک سے اگر بچ گیا تو دوسری سے بچنامشکل ہے،ایک آفت کلام ہے اور دوسری آفت خاموشی وسکوت ہے، اور یہ دونوں گناہ میں ایک دوسری سے بڑھی ہوئی ہیں۔ کلمۂ حق سے ساکت رہنے والا گونگا شیطان ہے، مداہن ہے اوراللہ کا نافرمان ہے،کیونکہ نہی عن المنکر سے وہ خاموش رہا،
Flag Counter