بلکہ بعض اوقات اسی بنا پر افضل الجھاد کی سعادت سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ باطل اور غلط بات زبان پر لانے والا شیطان ناطق ہے اوراللہ کا نافرمان ہے ،اکثر لوگ انھی دو آفتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، صراطِ مستقیم پر وہ ہیں جو درمیانی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں جو باطل سے کفِ لسان کا اہتمام کرتے ہیں اور وہی بول بولتے ہیں جو آخرت میں انھیں نفع دینے والے ہیں،وہ بے فائدہ کلام نہیں کرتے، چہ جائیکہ وہ کلام کریں جو اس کے لیے آخرت میں نقصان کا باعث ہو۔ انسان قیامت کے دن پہاڑوں کے برابر بڑی بڑی نیکیاں لے کر آئے گا، مگر دیکھے گا کہ اس کی زبان کی آفتوں نے انھیں ملیامیٹ کر دیا ہے۔ اور یوں بھی ہو گا کہ قیامت کے دن پہاڑوں جیسے بڑے بڑے گناہ لے کر آئے گا، مگر زبان سے کثرتِ ذکر کی بدولت وہ سب ختم ہو جائیں گے۔(الجواب الکافی) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ایک ذمہ داری کا ذکر ہے کہ دو نگران فرشتے ہر انسان کا نامۂ اعمال لکھنے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کچھ فرشتے وہ ہیں جوانسان کی حفاظت پر مأمور ہیں۔ بعض وہ ہیں جو قیام میں،کچھ رکوع میں،کچھ سجود میں اور کچھ بیٹھے ہوئے اللہ کی تسبیح وتہلیل وتکبیر میں مصروف ہیں،،کچھ وہ ہیں جو حاملینِ عرش ہیں، کچھ وہ ہیں جو عرش کا طواف کرتے ہیں،وہ بھی ہیں جو بیتِ معمور کا طواف کرتے ہیں۔ اور وہ بھی ہیں جواللہ کے حکم سے دنیا کے نظام وانصرام میں مصروف ہیں۔ غرض یہ کہ ہر ایک کی ایک نہ ایک ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے، جسے وہ بہر نوع پوری کر رہے ہیں۔قرآنِ مجیداور احادیثِ مبارکہ میں فرشتوں کا ذکر اور ان کی ذمہ داریوں کا تذکرہ ہے اور ان پر ایمان لانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، فرشتوں کا وجود محض تصوراتی نہیں اور نہ ہی کسی قوت ملکی یا ستاروں یا اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں کا نام ہے جیسا کہ بعض تجدد پسندوں اور ملحدوں نے سمجھا ہے، بلکہ یہ ایک نورانی غیر مرئی مخلوق ہے، بعض فرشتوں کا تو قرآن واحادیث میں نام بنام ذکر ہے اور ان کی ذمہ داریوں کا بھی ذکر ہے، اور ان پر ایمان ، ایمان بالغیب کا ایک حصہ ہے۔ انسان کا نامۂ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو﴿رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ ﴾کہا گیا کہ وہ بڑے مستعد نگران ہیں، گویا انسان ان کی نظروں میں ہے وہ انسان کو دیکھتے ہیں، مگر انسان ان کو |