نہیں دیکھ سکتا ، البتہ قیامت کے روز انسان فرشتوں کو دیکھے گا۔ دنیا میں انسان اپنی آنکھ اور بینائی کی کمزوری کی بنا پر انھیں نہیں دیکھ سکتا، بلکہ مضبوط ترین خردبین کے ذریعے سے بھی انھیں دیکھنے سے قاصر ہے۔مگر قیامت کے دن انسان کی بینائی تیز اور طاقت ور کر دی جائے گی تو وہ فرشتوں کو اور جنوں کو بھی دیکھے گا، بلکہ مومن اللہ گکے دیدار سے بھی مشرف ہو گا۔ اس میں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تقسیم اورقدرتِ کاملہ کا اظہار ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو جس قدر چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے قوت وطاقت عطا فرماتا ہے،اور جس کی جس طرح چاہتا ہے ذمہ داری اور ڈیوٹی لگا دیتا ہے، یہ سارے اختیارات اسی خالق ومالک اور قادرِ مطلق کے ہاتھ میں ہیں۔ اس آیت میں یہ سبق بھی ہے کہ انسان جب یہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر دو نگران مقرر ہیں اور وہ میری ہر بات اور ہرعمل کا ریکارڈ جمع کر رہے ہیں، یہی نامۂ اعمال روزِ قیامت میرے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہو گا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور حاضر کر کے اسے کہا جائے گا کہ اپنا نامۂ اعمال پڑھو، باوجود یکہ اللہ تعالیٰ سے اس کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں پھر بھی اس انتظام واہتمام کا ذکر انسان کے لیے زجرو توبیخ اوراللہ سے شرم وحیا کے پہلو سے نافرمانیوں سے بچنے کا باعث ہے۔ اور مجرمین کے لیے انصاف کے تمام تر پہلوؤں کو پورا کرنے کا ایک تقاضا ہے۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے الدرالمنثور ( ص۱۰۵ج۶) میں ابو الشیخ کی کتاب العظمۃ اور شعب الایمان کے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے دو فرشتے مقرر کیے ہیں جو انسا ن کا نامۂ اعمال لکھتے ہیں، انسان جب مر جاتا ہے تو فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! انسان مر گیا اب ہمیں اجازت دیں کہ ہم آسمان پر چلے جائیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آسمان تو فرشتوں سے بھرا ہوا ہے جو میری تسبیح کر رہے ہیں۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہم زمین پر رہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میری زمین میری مخلوق سے بھری ہوئی ہے جو میری تسبیح کرتی ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں پھر ہم کہا ں رہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم میرے اس بندہ کی قبر پر رہو اور تم اللہ اکبر، لا إلہ إلا اللہ ، سبحان اللہ پڑھو اور اس میرے بندے کے صحیفۂ اعمال میں قیامت تک |