Maktaba Wahhabi

89 - 190
نَدْرِیْ مَا السَّاعَۃُ إِنْ نَّظُنُّ إِلَّا ظَنّاً وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ ﴾ (الجاثیۃ:۳۲) ’’اور جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کا وعدہ بالکل برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے؟ہم بس ایک خیال سا رکھتے ہیں ہم کو یقین نہیں ہے۔‘‘ جیسے ہر سنی سنائی بات پر کچھ نہ کچھ ظن وگمان ہو جاتا ہے،اسی نوعیت کا قیامت کے بارے میں ان کو گمان یا شبہ تھا،بلکہ بعض نے تو اس کے معنی یہ کیے ہیں:ان نظن الا انکم تظنون ظنا کہ ہمارا خیال ہے کہ قیامت کے بارے میں یہ تمھارا ظن وگمان ہے (قرطبی،فتح القدیر) ورنہ ہم کو اس پر یقین نہیں ۔ان کے اسی ذہنی تذبذب کو یہاں لبْسٌ ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ الحج(۵) اور النمل(۶۶) میں جو اسی حوالے سے کفار کی طرف سے قیامت کے بارے میں شک اور ریب کا لفظ آیا ہے تو یہ صرف اسی تناظر میں ہے جس کا اظہار وہ اکثر کیا کرتے تھے کہ جب ہم ہڈیاں ہو جائیں گے تو ہمیں دوبارہ کیونکر زندہ کیا جا سکے گا۔ یوں نہیں کہ انھیں قیامت کے بارے میں تذبذب وتردد تھا ۔تردد کی صورت میں حتمی انکار نہیں ہوتا لیکن وہ تو اس کے انکار کی قسمیں کھاتے اور قیامت کے قائم ہونے کا مذاق اڑاتے تھے۔ جیسا کہ باحوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ سورۃ السجدۃ میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَقَالُوْا أَاِذَا ضَلَلْنَا فِیْ الْأَرْضِ أَاِ نَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ بَلْ ہُمْ بِلِقَائِ رَبِّہِمْ کَافِرُوْنَ o﴾(السجدۃ:۵۰) ’’اور وہ کہتے ہیں جب ہم مٹی میں رل مل چکے ہوں گے تو ہ پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے درحقیقت یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔‘‘ قیامت کے ’’کافرون‘‘کے بارے میں ہی فرمایا گیا ہے: ﴿وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ oالَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ ﴾ (المطففین:۱۰،۱۱) ’’تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لیے جو روزِ جزا کو جھٹلاتے ہیں۔‘‘
Flag Counter