Maktaba Wahhabi

76 - 190
کھائیں ،یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں،پھر یہ کیوں شکر ادا نہیں کرتے؟‘‘ (یٰس:۳۳،۳۴،۳۵) جس طرح پانی سے ہم مردہ زمین کو زندگی بخشتے ہیں، اسی طرح انسانوں نے بھی زمین سے نکلنا ہے،انسان دواڑھائی من کا، پانچ چھ فٹ لمبا ،زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ عزیزواقارب بڑے احتیاط واہتمام سے قبر میں اُسے اُتار دیتے ہیں، مگر چند دنوں کے بعد یہ کیڑے مکوڑوں کی غذا بن جاتا ہے یا خود مٹی ہی اسے چٹ کر جاتی ہے، الا ماشاء اللہ ۔ اسی زمین میں ایک ننھا منا رائی اور خشخاش کا بیج ہے یا دیگر جڑی بوٹیوں کامعمولی بیج ہے،مٹی کی تہ میں چھپا ہوتا ہے اور ایک مدت تک اسی طرح محفوظ رہتا ہے، وقتِ موعود پر بارش برستی ہے،یا اسے پانی ملتا ہے تو اس سے نرم ونازک کو نپل نکلتی ہے،اور جڑی بوٹی یا پودا اور درخت کی شکل اختیار کر جاتا ہے، مضبوط وقوی ہیکل حضرت انسان کا وجود چند دنوں میں خاک میں ملا دینے والا اور ایک رائی اور خشخاش کو کئی ماہ، بلکہ سال تک مٹی کی تہ میں محفوظ رکھنے والا کون ہے؟ جو ہستی دانۂ رائی اور چھوٹے چھوٹے بیجوں سے جڑی بوٹیاں اور درخت پیدا کر سکتی ہے وہ زمین میں ملے اور بکھرے ہوئے انسان کے اجزا کو از سرِ نو پیدا کرنے پر کیوں قادر نہیں؟ زمین کی حیات سے حیات بعد الموت پر یہ استدلال قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے ۔ایک جگہ فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ الَّذِیْ أَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیْرُ سَحَاباً فَسُقْنَاہٗ إِلیٰ بَلَدٍ مَّیِّتٍ فَأَحْیَیْنَا بِہٖ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ ﴾(فاطر:۹) ’’اوراللہ وہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، پھر وہ بادل اُٹھاتی ہیں ،پھر ہم اسے ایک مردہ شہر کی طرف لے جاتے ہیں اور اسی سے ہم مردہ زمین کو زندگی دیتے ہیں۔(مرے ہوئے انسانوں کا قیامت کے دن) اسی طرح جی اٹھناہے۔‘‘ احادیث میں اس کی وضاحت ہے کہ جب تمام جاندار قیامت کے دن ختم ہو جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے نیچے سے بارش برسائیں گے۔ جسے ماء الحیاۃ کا نام
Flag Counter