Maktaba Wahhabi

75 - 190
ہے کہ وہ بھی کھجور کے درخت سے نکلتا ہے ۔اور﴿نَّضِیْدٌ ﴾کے معنیسامان کو قرینے اور سلیقے سے اُوپر نیچے رکھنے کے ہیں۔ کھجور کا یہ گابھا اور خوشہ بھی تہ بہ تہ موتیوں کی طرح نہایت سلیقے سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے باغات اور قسم قسم کے اناج اور میوے سب اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں، یہ نہ تمھاری تخم ریزی کا ایک مسلسل عمل ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی انھیں پیدا کرنے والاہے: ﴿أَفَرَأَیْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ o أَأَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَo لَوْ نَشَآئٗ لَجَعَلْنَاہٗ حُطَاماً فَظَلْتُمْ تَفَکَّہُوْنَ ﴾(الواقعہ:63‘64‘65) ’’کبھی تم نے خیال کیا کہ یہ بیج جو تم بوتے ہو، ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا ان کو اُگانے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اِن کھیتیوں کوبھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں کرتے رہ جاؤ۔‘‘ اس لیے یہ سب اسی کے فیضان کا نتیجہ ہے، اور یہ اس لیے کہ﴿رِزْقاً لِلْعِبَادِ﴾ بندوں کو اس سے رزق ملے،اورزمین میں جو کچھ پیدا ہوتا ہے، بلکہ پورے آفاق میں جو کچھ بھی بنایا گیا ہے یہ سب انسان کے لیے ہے، ﴿ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرضِ جَمِیْعًا﴾اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی کا محتاج نہیں وہ سب کو کھلاتا ہے، خود کھانے پینے سے بے نیاز ہے۔‘‘﴿وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ﴾اور یہ رزق بلا تفریق سب انسانوں کے لیے ہے، البتہ عبدِ ’’منیب‘‘ رزق کھا کر ذاکروشاکر بنتا ہے اور دوسرا حیوانوں کی طرح محض پیٹ بھرنے کے لیے کھاتا ہے۔ اس پانی سے مردہ زمین کو زندگی ملتی ہے۔ بنجر اور مردہ زمین پر بارش برستی ہے تو اسے زندگی مل جاتی ہے ہر سو ہریالی اور شادابی نظر آتی ہے۔ اسی حقیقت کا اظہار کئی مقامات پر ہوا،ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ان لوگوں کے لیے مردہ زمین ایک نشانی ہے،ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں، ہم نے اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے اور ان کے اندر سے چشمے جاری کیے، تاکہ یہ اس کے پھل
Flag Counter