فرماتے ہیں: أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَطَرٌ، قَالَ: فَحَسَرَ ثَوْبَہٗ حَتّٰی أَصَابَہٗ مِنَ الْمَطَرِ، فَقُلْنَا لِمَ صَنَعْتَ ھَذٰا؟ قَالَ: لِأََنَّہٗ حَدِیْثُ عَھْدٍ بَرَبِّہِ۔ (مسلم :رقم۸۹۸) ’’ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی، توآپ نے اپنا کپڑا بدنِ اطہر سے ہٹا دیا یہاں تک کہ آپ کے جسدِ اطہر پر بارش کا چھڑکاؤ ہونے لگا،ہم نے عرض کیا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا: اس لیے کہ یہ ابھی اپنے پروردِ گار کی طرف سے نئی نئی آئی ہے۔‘‘ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب آسمان پر بادل نمودار ہوتا تو آپ تمام کام ترک کر دیتے اور یہ دعا کرتے اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا۔ ’’اے اللہ !میں اس کی تباہ کاریوں سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ اور جب بارش برسنے لگتی تو آپ فرماتے:اَللّٰھُمَّ صَیِّباً ھَنِیْئاً اور ایک روایت میں نافعاً ہے، اے اللہ !اسے نفع دینے والی بارش بنا۔ (ابو داود:۵۰۹۹ وغیرہ)سورۃ الفرقان (۴۸) میں بارش کے پانی کو﴿مائً طھوراً﴾ پاک پانی فرمایا ہے، جو طاہر ومطہر ہے۔ ﴿فَأَنْبَتْنَا بِہٖ﴾ پھر اس پانی کی بدولت ہم نے’’جنات‘‘ باغات اور اناج کے کھیت اُگائے۔﴿الحَصِیْدِ ﴾ ’’الحصد والحصاد ‘‘ سے ہے جس کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں، آیت کریمہ میں ہے۔ ﴿واٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ﴾’’اور جس دن کھیتی کاٹو تواللہ کا حق بھی اس میں سے ادا کردو۔‘‘﴿الحَصِیْدِ ﴾کے معنی تباہی وبربادی بھی آئے ہیں اور یہاں﴿حَبَّ الْحَصِیْدِ ﴾اناج کے کھیت مراد ہیں، جنھیں کاٹ کر محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ اور اسی ’’ماے مبارک‘‘ سے ہم نے کھجور کے نہایت اُونچے اور بلند وبالا درخت پیدا کئے۔﴿بَاسِقَاتٍ ﴾بَسَقَ سے مشتق ہے اور’’الباسق‘‘ کے معنی ہیں: بلندی میں اُونچا چلے جانے والا، جس پر پھلوں کے لدے ہوئے تہ بہ تہ خوشے لگتے ہیں۔﴿طَلْعٌ ﴾کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں اور اسی سے کھجور کے گابھے اور خوشے پر بھی اس کا اطلاق ہوا |