دیا گیا ہے۔ بعض ضعیف روایات میں ہے کہ یہ بارش چالیس سال تک برستی رہے گی،تمام زمین پر بارہ ہاتھ تک پانی ہو گا، پھر دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو تمام اجساد جو ریڑھ کی ہڈی کی صورت میں محفوظ تھے ،ان سے انسان کا دوبارہ وجود بنے گا اور تمام ارواح اپنے اپنے اجساد میں لوٹ جائیں گی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے النھایہ (۱۸۹،۱۹۳ج۱) میں اور علامہ القرطبی رحمہ اللہ نے التذکرہ میں ان احادیث وآثار کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثِ شفاعت میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے کہ جو لاالہ الا اللہ کہتا تھا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا تھا،اسے جہنم سے نکال لاؤ، چنانچہ وہ جہنم میں سے انھیں سجدہ کے اثر سے پہچانے گے، جہنم کی آگ نے انھیں جلا دیا ہو گا ،مگر سجدہ کی جگہ یعنی پیشانی بچی ہوئی ہو گی، کیونکہ اللہ تعالیٰنے جہنم پر سجدہ کی جگہ کو جلانا حرام کر دیا ہے، جہنم سے وہ نکالے جائیں گے، ان پر ماء الحیاۃ ڈالا جائے گا تو وہ دوبارہ صحیح ہو جائیں گے۔(مسلم :رقم۴۵۱) یوں گویا مردہ زمین بھی پانی کی برکت سے آبادوشاداب ہوتی ہے۔ پانی کی بدولت قبروں سے موتیٰ کو زندگی ملے گی اور پانی ہی کی بدولت جہنم کے جلے ہوؤں کو تروتازگی حاصل ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ﴾(الانبیاء:۳۰) ’’اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے زندگی بخشی ‘‘ اسی طرح ایک جگہ فرمایا: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَّآئٍ ﴾(النور:۴۵) ’’اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ۔‘‘ہر دابہ کو نطفہ سے اور ہر شے جس میں حیات ہے اسے پانی کی بدولت زندگی ملی ہے۔ فرشتوں یا جنات کے بارے میں اگر ثابت ہو جائے کہ ان کے مادہ میں پانی کا عنصر نہیں تو وہ اس عام حکم سے مستثنیٰ قرار دیئے جائیں گے۔ |