﴿أَفَلَمْ یَرَوْا إِلیٰ مَا بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفاً مِّنَ السَّمَائِ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ ﴾(سبا:۹) ’’کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا جو ان کے آگے اور پیچھے آسمان اور زمین ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کا ایک ٹکڑا ان پر گرا دیں، بے شک اس میں نشانی ہے ہر رجوع کرنے والے کے لیے۔‘‘ یہ محض اس کی عنایت ہے کہ تم بچے ہوئے ہو، ورنہ وہ ایک لحظہ میں تمھیں ہلاک کر سکتا ہے ۔یہ زمین وآسمان اور اس کا سارا نظام اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، تم بھاگ کر کہیں جانہیں سکتے ،جب وہ چاہے تمھارے قدموں کے نیچے زمین میں کوئی زلزلہ لا کر اسی زمین کو تمھارا مرقد بنا دے، اور جب چاہے اسی آسمان سے کوئی بجلی یا نا گہانی آفت گرا کر تمھیں تہس نہس کر دے۔ پھر جس قادرِ مطلق کے یہ زمین وآسمان ہیں اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد انسان کے اجزاجہاں جہاں بکھرے پڑے ہیں انھیں زمین سے نکال لے۔ جو زمین اس کے حکم سے تمھارے لیے لقمۂ اجل بن سکتی ہے،وہی اس کے حکم سے تمھیں اُگل بھی سکتی ہے۔بلکہ یوں ہو بھی چکا ہے جو اہلِ ایمان کے لیے مزید یقین کا باعث ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ایک آدمی نے اپنے آپ پر بہت ظلم وزیادتی کی، فوت ہوتے ہوئے اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: کہ جب میں فوت ہو جاؤں، تو مجھے آگ میں جلا دینا اور میری نصف راکھ ہوا میں اڑا دینا اور نصف دریا میں بہا دینا۔اللہ کی قسم !اگراللہ نے مجھے اٹھا لیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ کسی اور کو اس قدرعذاب میں مبتلا نہیں کرے گا، چنانچہ وہ شخص مر گیا تو اس کے بیٹوں نے اسی طرح کیا جس طرح ان کے باپ نے کہا تھا، اللہ تعالیٰ نے دریا کوحکم دیا جو تمھارے اندر راکھ ہے اسے جمع کرو، اور ہوا وفضا کو حکم دیا جو ذرات تمھارے اندر ہیں انھیں جمع کردو۔ یوں اس کو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ کیا، اور اس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے عرض کیا:مِنْ خَشْیَتِکَ یَا رَبِّ ’’اے میرے رب !آپ سے ڈرتے ہوئے۔ ‘‘تو اللہ |