Maktaba Wahhabi

69 - 190
ہوئی ہیں۔ ’’مد‘‘ میں نیچے کی صورت ہوتی ہے جبکہ’’بناء‘‘ میں بلندی کی، زمین میں پہاڑ ہیں تو آسمان میں سورج اور چاند مرکوز ہیں۔زمین میں نباتات ہیں جو زمین کے پھٹنے سے نکلتے ہیں۔ جبکہ آسمان میں ستارے بنائے۔ زمین وآسمان کا یہ نظام،اور قدرتِ الہٰی کے یہ مظاہر تو جہ کرنے والوں کے لیے عبرت ،معرفت وبصیرت اور نصیحت ویاد دہانی کا باعث ہیں۔ ’’تبصرۃ‘‘ بَصَرَ سے ہے۔ ’’بَصَرٌ‘‘ کی جمع’’ابصار‘‘ہے ۔قوت بینائی کو ’’بصر‘‘ کہتے ہیں اور کسی چیز کو دیکھ کر اس سے عبرت اور سبق حاصل کرنے کو بصیرت اور دل کی بینائی کہتے ہیں۔ اور اسی معنی کے لیے’’ تبصرۃ ‘‘اور’’ بصیرۃ‘‘ کا لفظ ہے اور اس کی جمع بصائر ہے۔ محض آنکھ سے دیکھنے کے لیے’’بصیرہ‘‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ اور ’’الذکریٰ‘‘ کے معنی دراصل کثرت سے ذکرِ الہٰی کرنا ہے اور اس میں’’الذکر‘‘ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ (المفردات) مراد یہ ہے کہ غفلت چھوڑ کراللہ کو یاد کیا جائے، یہ سارا کارخانۂ قدرت جہاں بصیرت کا باعث ہے، وہاں اللہ کی یاد دہانی اور نصیحت کا سبب بھی ہے، مگر یہ بصیرت ونصیحت توجہ اور رجوع کرنے والوں کے لیے ہے۔ ’’منیب‘‘ ’’نوب‘‘ سے ہے۔ جس کے معنی ہیں کسی چیز کا بار بار لوٹ آنا۔ اسی سے ہے۔ الإ نا بۃ إلی اللہ یعنی توبہ اور اخلاصِ عمل کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹنا۔ گویاقرآن مجیدسے وہی فیض یاب ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے اور اس کی رضا کے جویندہ ہیں، اور ہدایت بھی انھی کا مقدر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ إِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآء ُ وَیَہْدِیْ إِلَیْہِ مَنْ أَنَابَ﴾ (الرعد:۲۷) ’’اے نبی !کہہ دیں اللہ جنھیں چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور ہدایت عطا فرماتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘ یہ نعمت راہ ِحق کی جستجو کرنے والوں کے لیے ہے،بے پرواہوں اور ناقدروں کے لیے نہیں۔ زمین وآسمان کی نشانیوں سے مستفید ہونے والے منیبین کے بارے میں فرمایا ہے:
Flag Counter