Maktaba Wahhabi

63 - 190
آسمان کی تخلیق انسان کی تخلیق سے کہیں بڑا کام ہے، انسان میں سوراخ ہیں، اس میں کئی تفاوت ہیں، مگر آسمان میں کوئی تفاوت نہیں، جب انسان اس حقیقت کو سمجھتا ہے اور اس پر سرد ھنتا ہے تو اس سے کم تر انسان کے دوبارہ پیدا ہونے کو وہ مستبعد کیوں سمجھتا ہے؟ آسمان کی زینت دن اور رات میں مختلف ہے، یہی اختلاف لیل ونہار کا باعث ہے۔ رات آنے پر دن کا نظارہ ختم ہو جاتا ہے، اور آسمانِ دنیا ستاروں سے جگمگا اٹھتا ہے۔ مگر طلوعِ فجر سے ان ستاروں کی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑ جاتی ہے اور نَیّرِ تاباں کے طلوع ہونے پر سب ستارے گویا ختم ہو جاتے ہیں، یہ نظام ایک عرصۂ دراز سے یوں ہی جاری وساری ہے۔ جوقادرِ مطلق روز مرہ کے اس انقلاب اور اعادہ پر قادر ہے وہ انسان کے ختم ہونے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ ’’الحق‘‘ کی تکذیب سے مراد جیسا کہ ہم نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس سے بعد کی آیت میں آسمان کی تخلیق اور اس کی تزیین وآرائش پر غور وفکر کی دعوت ہے۔ اس میں قیامت کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی طرف بھی اشارہ مراد ہو سکتا ہے، چنانچہ آسمان کا یہ سارا نظام جس طرح سورج سے وابستہ ہے اس کے طلوع ہونے سے سارے ستارے بے نور ہو جاتے ہیں۔ پیدا کرنے والے نے اگر یہ فوقیت سورج کو دے رکھی ہے تو وہ انسانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت اور فوقیت کیوں نہیں دے سکتا؟ آسمان کا سورج تو ’’سراج وھاج‘‘ہے تاہم وہ بے نور ہو جاتا ہے مگر زمین کا’’سراج منیر‘‘ صدا روشن رہے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی معنی میں فرماتی ہیں: لَنَا شَمْسٌ وَلِلْآفَاقِ شَمْسٌ وَشَمْسِیْ خَیْرٌ مِّنْ شَمْسِ السَّمَآئِ فَإنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَعْدَ فَجْرٍ وَشَمْسِیْ طَالِعٌ بَعْدَ الْعِشَآئِ ’’ایک سورج ہمارا ہے اور ایک سورج آسمان کے افک پر طلوع ہونے
Flag Counter