سالی، آفات وبلیات وغیرہ ۔ مگر ان حوادث میں طبعی آثار ظاہر ہونا جیسے آنکھوں سے آنسو بہہ پڑنا یا درد کی وجہ سے کراہنا بے صبری نہیں۔ (۲) الصبر علی الطاعات: یعنی جن کاموں کے کرنے کااللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ان کی پابندی اور اس پر آنے والی تکالیف ونقصانات پر صبر۔ روزہ اور ماہِ رمضان کو احادیث میں اسی لیے صبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (۳) الصبر عن المحرمات: یعنی جن سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ان سے اجتناب اور اس کے نتیجہ میں آنے والی پریشانیوں پر صبر ۔ اس لیے صبر صرف اموات وآفات کے موقعہ پر ہی نہیں، تمام اوامر ونواہی کے مطابق اپنے آپ کو روک لینا اور ان کا پابند بنا لینا صبر ہے، امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ اور میمون بن مہران رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے: ان پر صبر اموات وغیرہ پر صبر سے افضل اور اولی ہے کیونکہ اموات وآفات تو اکثر وبیشتر محدود وقت سے متعلق ہیں پھر غم غلط ہو جاتا ہے،مگر اوامرونواہی کے مطابق اپنے آپ کو روکنا اور خواہشات وشہوات کو کچلنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ یہاں اہلِ علم کے ہاں بڑی دلچسپ طویل بحث ہے کہ فقیر صابر افضل ہے یا غنی شاکر ،حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے اس پرعد ۃ الصابرین میں بڑی نفیس بحث کی ہے، یہ اور اسی نوعیت کے دیگر مباحث کے لیے اہلِ ذوق اس کتاب کی اور احیاء العلوم جلد چہارم کی مراجعت فرمائیں۔ دوسری بات، جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا، وہ ہے صبر کے ساتھ تسبیح وتحمید اور نماز، قرآنِ مجید میں ہے: ﴿فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تُطِعْ مِنْہُمْ آثِماً أَوْ کَفُوْراًo وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً ﴾( الدھر: ۲۴،۲۵) ’’اپنے رب کے حکم پر صبر کیجئے اور ان میں سے کسی گنہگار یا کافر کی کوئی بات نہ مانئے اور اپنے رب کا ذکر صبح وشام کیجئے۔‘‘ جب بھی مصیبت آئے تو إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّـا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کا حکم ہے۔ ابھی اوپر گزرا ہے کہ سورۃ طٰہٰ( ۱۳۰) اور سورۃ الطور(۴۸،۴۹) میں صبر کے ساتھ تسبیح وتحمید اور |