Maktaba Wahhabi

188 - 190
اسے رحب الصدر ( کشادہ دلی) کہتے ہیں جس کی ضد’’ ضجر‘‘ ہے۔ اگر کسی بات کو روک رکھے تو اسے’’ کتمان‘‘ کہتے ہیں اس کی ضد مَذَلٌ (مجبورہو کر راز فاش کرنا) ہے۔ قرآنِ مجید میں ان تمام صفات کو صبر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔(مفردات) مزید تفصیل کے لیے علامہ غزالی رحمہ اللہ کی احیاء العلوم (ص ۶۶،۶۷ج۴) اور حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ کی عدۃ الصابرین ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ گ نے صبر اور صابرین کے بارے میں فرمایا ہے:﴿إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ ﴾ ( البقرۃ: ۱۵۳) ’’بالیقین اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ نیز فرمایا ﴿وَاللّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ﴾( آلِ عمران: ۱۴۶)’’ اوراللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ صبر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: ﴿أُولٰٓـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ ﴾( البقرۃ: ۱۵۷) ’’وہی ہیں جن پر ان کے رب کی خاص عنایت اور مہربانی ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ جنت کے حقدار وں کا ایک وصف یہ بھی ہے، چنانچہ فرمایا:﴿وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْراً﴾ ( الدھر :۱۲)’’ ان کے صبر کے بدلے میں اللہ نے انھیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمایا ہے۔‘‘بلکہ فرمایا: ﴿إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ (الزمر: ۱۰)’’ بالیقین صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجروثواب دیا جائے گا۔‘‘قرآنِ مجید کی تقریباً ایک سوآیات میں صبر کا مختلف پہلوؤں سے ذکر ہوا ہے، اور احادیث پاک میں بھی صبر کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ صبر کے بارے میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا تعلق بس کسی کی وفات یا جان ومال کے نقصان سے ہے، مگر یہ درست نہیں۔ اہلِ علم نے صبر کی تین قدریں اور قسمیں بیان کی ہیں: (۱) الصبر علی أقدار اللہ عزوجل : یعنی اللہ تعالیٰ کے تقدیری فیصلوں پر صبر، جیسے بیماری، موت، جان ومال وعزت کا نقصان ، ناگہانی پریشانی ومصیبت ،اپنی اُمیدوں کے پورا ہونے میں ناکامی، فقیری ومسکنت ، دشمنوں کی ایذا رسانی، قحط اور خشک
Flag Counter