ہے شائقین الترغیب والترہیب جلد دوم ملاحظہ فرمائیں۔ ﴿وَأَدْبَارَ السُّجُوْدِ﴾ کے بارے میں حضرت عمر ،علی، حسن، ابنِ عباس اور ابوہریرہ وغیرہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور متعدد تابعین عظام رحمہم اللہ سے یہ منقول ہے کہ اس سے مغرب کے بعد کی دو رکعتیں مراد ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر وعصر کے علاوہ باقی ہر نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے۔(احمد، ابوداود: ۱۲۷۶) بلکہ عصر کے بعد بھی جبکہ سورج روشن ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔(ابوداود: ۱۲۷۴) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دو رکعتیں گھر میں پڑھتے تھے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر کے لیے تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما ! نمازِ فجر سے پہلے دورکعت نماز ’’أَدْبَارُ النُّجُوْمِ‘‘ ہے اور مغرب کے بعد دورکعتیں ’’أدبار السجود‘‘ہے۔ (ترمذی ،حاکم) مگر یہ روایت رشدین بن کریب راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسے غریب کہا ہے۔(ابنِ کثیر :ص ۲۹۴ج۴) بعض نے ﴿وَأَدْبَارَ السُّجُوْدِ﴾ سے سورج کا سجود مراد لیا ہے ا ور اس سے ظہر ومغرب کی نماز یں مراد لی ہیں، مگر سورج کاسجود تو ہر لحظہ اور ہر گھڑی ہے۔ سورۃ الحج( ۱۸) میں سورج ،چاند وغیرہ کے سجدہ کا ذکر ہے اور اس سے مراد ان کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں جھکنا اور سرِ تسلیمِ خم کرنا ہے۔ یہاں دو باتیں مزید غور طلب ہیں،ایک صبر اور دوسری صبر کے ساتھ نماز ۔صبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روکنا،یا یہ کہ عقل وشریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک لینا صبر ہے۔ یہ عام لفظ ہے جو مختلف مواقع استعمال کے اعتبار سے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، چنانچہ کسی مصیبت پر نفس کو روک رکھنا صبر ہے، یہ ’’جزع‘‘ کی ضد ہے۔ اور جنگ میں نفس کو روک رکھنا شجاعت ہے اور اس کی ضد’’جبن‘‘ ( بزدلی ) ہے، یہی صبر اگر پریشان کن حادثہ برداشت کرنے کی صورت میں ہو تو |