Maktaba Wahhabi

190 - 190
نماز کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ ﴾( البقرۃ: ۱۵۳) ’’اے ایمان والو!اللہ سے مدد چاہو صبر اور نماز کے ساتھ‘‘ یہی بات اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمائی کہ صبر اور نماز سے مدد چاہو۔(البقرۃ: ۴۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿اسْتَعِیْنُوْا بِاللّہِ وَاصْبِرُوْا﴾( الاعراف: ۱۲۸) ’’اے میری قوم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔‘‘ یہاں اللہ سے استعانت کا ذکر ہے اور پہلی آیات میں نماز اور صبر کے ذریعے سے اللہ سے مدد طلب کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ نماز ایک بڑا ایجابی پہلو ہے اور استعانت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور ’’صبر‘‘ ایک سلبی کیفیت ہے اور اس میں معاصی سے بچاؤ کا پہلو ہے۔ اور ظاہر ہے معاصی سے اجتناب بھی بہت بڑی عبادت اوراللہ کی محبوبیت ومدد کا سبب ہے۔ گویا نماز سے مأمورات میں سے ایک بڑے عمل کے کرنے اور صبر سے منہیات سے اجتناب کا اشارہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: یَاأَبَاھُرَیْرَۃَ اتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ(ترمذی: ۲۳۰۵) ’’اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !محرمات کے ارتکاب سے بچو، تم سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے۔‘‘ ایک جگہ براہِ راست اللہ سے مدد طلب کرنے کا ذکر ہے تو دوسری جگہ مدد کے عملی ذرائع سے اللہ سے مدد طلب کرنے کا ذکر ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا حَزَبَہْ أَمرٌ صَلّٰی( ابوداود:۱۳۱۹) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو نماز پڑھتے۔‘‘ غزوۂ بدر کے دن میدانِ کا رزار میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی جانثاری کے جوہر دکھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عریش میں دورکعت نماز پڑھتے ہیں اور دعا ومناجات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مشکل اوقات میں نماز، تسبیح وتحمید ،ذکرودعا یہ اللہ سے گہرے تعلق اور مدد کا بہت بڑا ذریعہ ہیں،بلکہ اللہ سے تعلق اور اس کی عنایت کے بغیر صبر بھی پیدا نہیں ہو سکتا، جیسے فرمایا: ﴿وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ إِلاَّ بِاللّہِ ﴾( النحل:۱۲۷) ’’اور صبر کیجئے آپ اللہ کی مدد کے بغیر صبر نہیں کر سکتے۔‘‘ اسی لیے یہاں صبر کے ساتھ نماز اور تسبیح وتحمید کا حکم ہے۔
Flag Counter