جو اللہ کی شایانِ شان ہیں، یا یہ کہ کراللہ کو ان تمام صفاتِ مُثبتہ سے متصف کرنا ہے جو ان کی شان کے لائق ہیں، جیسے اللہ ایک ہے، علیم، رحمان، رحیم، قدیر، خبیر، سمیع، بصیر، غفار، اول وٗآخر ، حکیم ، حلیم ،حافظ ،رب، رزاق ،ناصر، غنی ،قوی، مالک وغیرہ صفاتِ حسنہ ہیں۔ انسان جب الحمد للہ ، اللھم لک الحمد، ولہ الحمد ، وبحمدہ کہتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفاتِ کما لیہ حسنہ کا اعتراف واظہار کرتا ہے، یا یوں سمجھئے کہ سبحان اللہ میں لاإلہ کا اظہار ہے اوروبحمدہ میں الا اللہ کا اقرار ہے۔ یہی نفی واثبات ایمان اور توحید ہے، اور یہی اللہ کو بہت محبوب ہے۔ تسبیح وتحمید کا حکم اللہ نے فرشتوں کو بھی دیا، بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہے﴿ وإِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمدِہٖ﴾ اسی کا انسانوں کو بھی حکم دیا تاکہ کائنات سے اس کی یگانگت ہو سکے، یہی نفی واثبات کا صحیح عقیدہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان تعلق کا ذریعہ ہے۔ اگر اس میں خلل واقع ہو تو انسان کا اللہ سے تعلق کمزور حتی کہ منقطع ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے آگے فکر وعمل میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے،جو دنیا وآخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث بنتا ہے۔ فاعتبروا یاأولی الأبصار۔ البتہ اللہ کی تسبیح وتحمید سے مراد یہاں نماز ہے۔ کیوں کہ جہاں جہاں بھی قرآنِ مجیدمیں تسبیح وتحمید کا اوقات کے ساتھ ذکر ہواہے وہاں نماز مراد ہے۔ صحیح بخاری(رقم ۵۵۴) وغیرہ میں حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ گکے ہاں پیش کیے جاؤ گے اور تم اللہ کو اسی طرح دیکھو گے جیسے یہ چاند دیکھ رہے ہو۔ اور اس کے دیکھنے میں کوئی شبہ نہیں کرتے، اگر ہو سکے تو آفتاب غروب ہونے اور طلوع ہونے سے پہلے نماز سے عاجز نہ رہو یہ ضرور پڑھو ۔ اس کے بعد آپ نے سورۃ ق کی یہی آیت تلاوت فرمائی، جس سے عیاں ہوتا ہے کہ یہاں تسبیح وتحمید سے فجر اور عصر کی نماز مراد ہے۔ اس صریح روایت کے بعد غروب سے پہلے سے ،مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں مراد لینا درست نہیں،یہ دو رکعتیں غروب کے بہر حال بعد ہیں پہلے نہیں۔ فجر اور عصرکی نمازوں کی خصوصیت کی بنا پر ہی آپ نے فرمایا: لَنْ یَّلِجَ النَّارَ أَحَدٌ مَنْ صَلّٰی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ |