Maktaba Wahhabi

182 - 190
ہے:﴿کَلَّا لَا تُطِعْہٗ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ یہی حکم ایک اور مقام پر یوں ہے: ﴿فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا وَمِنْ آنَآئِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی﴾(طہ:۱۳۰) ’’اے میرے نبی! یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں اس پر صبر کرو، اور اپنے رب کی تسبیح وتحمید سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے بیان کرو، اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرواور دن کے کناروں پر بھی شاید کہ تم راضی ہو جاؤ۔‘‘ یہی حکم سورۃ الدھر کی آیت (۲۴تا۲۶) میں ہے اور سورۃ الطور میں بھی فرمایا ہے: ﴿وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَإِنَّکَ بِأَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُo وَمِنَ اللَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَإِدْبَارَ النُّجُوْمِ ﴾( الطور: ۴۸،۴۹) ’’ اے میرے نبی! اپنے رب کے فیصلے پر صبر کرو، تم ہماری نگاہ میں ہو ، تم جب اُٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیا ن کرو، رات کو بھی تسبیح بیان کرو اور ستارے جب پلٹتے ہیں اس وقت بھی ۔‘‘ ’’تسبیح‘‘ کے معنی تنزیہ وتقدیس کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ نافیہ کا اظہار مقصود ہے، جیسے اللہ کا کوئی شریک نہیں،اس کا کوئی بیٹا اور بیوی نہیں، اس جیسا اور کوئی نہیں، اسے نیند کیا اونگھ بھی نہیں آتی، وہ کسی کا محتاج نہیں، انسان جب سبحان اللہ کہتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ سے ان تمام کی نفی کرتا ہے اور اعتراف کرتا ہے کہ اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، یہ شان صرف میرے اللہ کی ہے، اس کے علاوہ مخلوق میں کوئی نہیں جس میں کوئی عیب اور کمزوری نہ ہو اور جو کسی نہ کسی ناطے غیر کا محتاج نہ ہو۔ اور ’’حمد ‘‘ کہتے ہیں ثنا اور تعریف کو،یعنی اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے متصف قرار دینا
Flag Counter