خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمند ر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا،بلکہ عہد نامۂ جدید میں عبرانیوں کے نام پولس رسول کا خط کے باب ۴ آیت نمبر ۴ میں ہے: ’’خدا نے اپنے سب کاموں کو پورا کرکے ساتویں دن آرام کیا‘‘ اس لیے’’خروج‘‘ میں یہ تحریف چہ دلاور از دزدئے کہ بکف چراغ دارد کی مصداق ہے۔ تھکاوٹ اور آرام انسان کی کمزوری ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس قسم کے تصور سے پاک ہے۔ یہاں یہ بات بھی دیکھئے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے الثقات (ص ۱۰ج۸) میں ذکر کیا ہے کہ ایک شخص نے تین دنوں میں پوراقرآنِ مجیدقلم بند کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تم مسلسل لکھتے رہے تمھیں تھکاوٹ نہ ہوئی؟ تو اس نے بڑ ماری اور کہا ﴿مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ﴾ پھر کیا تھا اللہ تعالیٰ کو غصہ آیا اور اس کا دایاں ہاتھ شل ہو گیا اور اس کے بعد وہ ایک حرف بھی نہ لکھ سکا ۔ ﴿فَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُوْلُوْنَ ﴾ جو کچھ یہ کہتے ہیں اور جو بیہودہ الزام تراشیاں کرتے ہیں آپ اس پر صبر کریں،اپنے رب کی تسبیح وتحمید سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے کرتے رہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُوْا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾ (الاحقاف: ۳۵) ’’آپ اس طرح صبر کریں جس طرح اولواالعزم انبیاء نے صبر کیا۔‘‘جس طرح انھوں نے اپنی قوموں کی مخالفت ومزاحمت اور ایذار سانیوں سے دل بر داشتہ ہونے کی بجائے صبر کیا اور ہمت نہیں ہاری، آپ کوبھی انھی کی طرح صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں کئی مقامات پر دیا ہے ،ایک جگہ فرمایا :﴿فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ ﴾ (القلم: ۴۸)’’ اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو اور مچھلی والے( حضرت یونس علیہ السلام ) کی طرح نہ ہو جاؤ‘‘ جس طرح وہ اپنی قوم کے بارے میں بددلی کا شکار ہو کر بلا اذن نکل پڑے تھے، آپ بددلی کا شکارنہ ہو ں، بلکہ صبر وتحمل سے اپنے مشن پر ڈٹے رہیں۔ ان کا یہ استہزا اور بدتمیزی آپ کے نماز پڑھنے کے دوران میں بھی ہوتی تھی جیسا کہ عقبہ بن أبی معیط نے عین نماز کے دوران حرم میں آپ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی تھی ،آپ کوحکم دیا گیا کہ آپ اس پر صبر کریں اور نماز کا اہتمام جاری رکھیں۔ سورۃ العلق(۹،۱۹) میں اسی طرف اشارہ |