کرنے میں اس قدر اہتمام کیا ہے اور اسے ایسا کامل اور خوبصورت بنایا ہے کہ اس میں کہیں کوئی کمی یا کجی محسوس نہیں ہوتی تویہ کوئی بے مقصد تماشہ نہیں، بلکہ اس کا پیدا کرنا ایک مقصد پر مبنی ہے اور ہر عقلمند اور بصیرت رکھنے والا جب اس پہلو سے غور کرتا ہے تو وہ پکار اٹھتا ہے: ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ( آلِ عمران: ۱۹۱) ’’اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے کار اور باطل طور پر نہیں بنایا، آپ پاک ہیں ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔‘‘ ﴿وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ﴾ اس میں دراصل مشرکین کی تردید ہے کہ چھ دنوں میں یہ سب کچھ پیدا کرنے سے ہمیں ذرا بھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی ’’مس‘‘ کے معنی چھونا ہے جو’’لمس‘‘ کے ہم معنی ہے، گویا ارشاد ہے کہ تھکان کا ادنیٰ درجہ بھی ہمیں محسوس نہیں ہوا۔ یوں تھکان کی نفی نہیں بلکہ اس کے احساس کی نفی ہے۔(سبحان اللہ)ہم جس طرح پہلے تازہ دم تھے اسی طرح اب بھی تازہ دم ہیں،اور جب پہلی بار پیدا کرنے سے ہم عاجز نہیں ہوئے اور ہمارے لیے کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہے تو کیا دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل ہے؟ اگر یہ لوگ آپ کی دعوتِ توحید اور آخرت پر ایمان کا مذاق اُڑاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں نامناسب باتیں کرتے ہیں، تو آپ ان کی اس بیہودگی پر صبر کریں اور اپنے اللہ کی تسبیح وتحمید اور بندگی میں لگے رہیں۔ امام قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا کہ اس میں یہودِ مدینہ کی تردید ہے ، جو محرف تورات کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں زمین وآسمان بنائے اور ساتویں دن آرام کیا۔‘‘(قرطبی) چنانچہ بائبل کی کتابِ پیدائش (ب ۲:۲) میں ہے کہ آسمان اور زمین کو بنانے کے بعد’’اپنے سارے کام سے جسے وہ کر رہا تھا ساتویں دن آرام کیا۔‘‘ مگر مسیحی پادریوں نے بعد میں اسے ’’آرام کیا‘‘ کی بجائے ’’فارغ ‘‘کر دیا۔ بائبل کے عربی ترجمہ میں بھی فَاسْتَرَاحَ فِیْ الْیَوْمِ السَّابِع ِکے الفاظ ہیں۔ اس کی مزید تفصیل تفہیم القرآن (ص ۱۲۵ج۵) میں دیکھئے۔ مگر کیا کیا جائے کہ خروج(ب ۲۰:۱۱) میں بھی یہی ہے کہ |