وَسَاعَاتُھَا۔ جنتیوں اور جہنمیوں پر دن اور اس کی گھڑیاں گزریں گی، حالانکہ رات دن وہاں نہیں ہوں گے۔ زمانۂ دجال کے بارے میں جیسے فرمایا: ایک دن سال کے برابر ہو جائے گا اور اس میں دنوں کے حساب سے نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔(مسلم :۷۳۷۳ ) اسی طرح مراد یہاں بھی دنیا کے دنوں کے حساب سے دن اور گھڑیاں ہیں، اسی طرح اس نظام کے جاری ہونے سے پہلے کے ایام کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تو اس بات پر قادر ہے جس چیز کو چاہے، ایک لحظہ میں پیدا کر سکتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضٰی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ﴾( البقرۃ: ۱۱۷) ’’آسمانوں اور زمین کو بنانے والا جب کسی چیز کا فیصلہ فرماتا ہے تو حکم دیتا ہے ہو جا، تو وہ ہو جاتاہے۔‘‘ یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورۃ آلِ عمران( ۴۷) مریم(۳۵) غافر(۴۲) یٰسٓ (۸۲) میں بھی فرمائی۔اللہتعالیٰ نے ناقۂ صالح علیہ السلام کو اپنے حکم سے پہاڑ کی کوکھ سے پیدا کیا۔ اس کے حکم سے لحظہ بھر میں بگڑے انسانوں کو بندر بنا دیاگیا، زمین کے تختہ کو آن کی آن میں قومِ لوط علیہ السلام پر اُلٹ دیاگیا۔ اس لیے وہ قادرِ مطلق جب چاہے جو چاہے پیدا کرنے پر قادرہے،مگر زمین وآسمان کے پیدا کرنے میں چھ دنوں کی مدت معاذ اللہ بطورِ عجز نہیں،بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ومنشا اور حقیقتِ واقعی کا اظہار ہے کہ وہ لمحہ بھر میں بھی بنانے پر قادر تھا،مگر ان کو چھ دنوں میں بنایا، اور اس میں خود انسان کے لیے بڑا سبق ہے کہ جب قادرِ مطلق نے تخلیقِ عالم کی تکمیل چھ دنوں میں کی ہے تو انسان کو اپنی تمام تر ناتوانیوں اور کمزوریوں کے عجلت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تو کوئی کمی یا کجی نہیں،مگر انسان کا کوئی کام کامل اور مکمل نہیں اسے اپنے امورمیں مزید غور وفکر کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ تویوں چھ دنوں میں اس نظام کو پیداکرنے میں ہماری تفہیم اور ہماری تربیت کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم چھ دنوں میں عملِ تخلیق اس بات کا بھی مشعر ہے کہ جس مالک نے اس کے پیدا |