رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ﴾(آلِ عمران:۸) ’’اے ہمارے رب! ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو نہ پھیر، اور اپنی رحمت ہمیں عطا فرما بے شک تو بڑا دینے والا ہے۔‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ یہ دعا کیوں پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دل ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، وہ جب چاہتے ہیں اسے حق پر قائم رکھتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اسے حق سے پھیر دیتے ہیں۔(ابن کثیر :۱۶۴ج۱) حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ لا یستقیم إیمان عبد میں’’ ایمان‘‘ سے مراد اعمال ہیں۔(جامع العلوم والحکم :ص۶۵)قرآنِ مجید میں بھی’’ایمان ‘‘ کا اطلاق عمل پر ہوا ہے، چنانچہ تحویلِ قبلہ کے موقع پر سوال اٹھا کہ جو حضرات بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے اور اسی دوران میں فوت ہو گئے ان کی نمازیں کیا ہوئیں ،جس پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ﴾ ’’اللہ تمھارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔(بخاری : ۴۰،۴۴۸۶ وغیرہ) لیکن یہاں’’ایمان‘‘ سے ایمانِ قلبی مراد لینا بھی درست ہے۔ منافق ایمان کا اظہار زبان سے کرتے تھے اور کہتے تھے: ﴿نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللَّہِ ﴾ (المنافقون: ۱) ’’کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹ بولتے ہیں ان کا یہ زبانی اقرار معتبر نہیں۔ ان مدعیانِ ایمان نے مسجد بنائی تو اللہ تعالیٰ نے اسے’’مسجد ضرار‘‘ قرار دیا ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یَا مَعْشَرَمَنْ أسْلَمَ بِلِسَانِہٖ وَلَمْ یُفْضِ الإَیمَانَ إلی قَلْبِہِ(ترمذی :۲۰۳۲وغیرہ) |