Maktaba Wahhabi

164 - 190
ج۷) بادشاہ کے دل کی درستی ہی انسان کی، بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح وفلاح کا باعث ہے۔ انسانوں کی بھلائی کے لیے کتنے ہی انتظام کر لیے جائیں جب تلک دلوں کی اصلاح نہیں ہوگی،ماحول کی درستی اور اصلاح نہیں ہوگی۔ ناسور کو اوپر سے آپ لاکھ مرہم پٹی کریں وہ درست نہیں ہو گا۔ اور مریض شفا یاب نہیں ہو گا، ہمارے ماحول کا ناسور بھی دلوں کی خرابی کے باعث ہے، جب تک اس کی چار ہ گری نہیں ہو گی حالات نہیں سنور یں گے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیم اللسان کو منافق قرار دیا( السلسلۃ الصحیحۃ: ۱۰۱۳) اسی طرح زبان سے میٹھے میٹھے بول بولنے والے منافقوں کے بارے میں فرمایا: کہ أَلْسِنَتُھُمْ أَحْلٰی مِنَ السَّکْرِ وَقُلُوْبُھُمْ قُلُوْبُ الذِّیَابِ۔(ترمذی: ۲۴۰۴) ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی مگر دل بھیڑیئے کے ہیں یعنی انسانی شکل وصورت میں وہ گویا درندے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا یَسْتَقِیْمُ إِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُہٗ، وَلََا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُہٗ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُہٗ وَلََا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَأْ مَنَ جَاَرُہٗ بَوَائِقَہٗ۔ (احمد: ۱۳۰۷۹) ’’کسی بندے کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں جب تک اس کا دل صحیح نہ ہو، اور اس کا دل اس وقت تک درست نہیں جب تک اس کی زبان درست نہ ہو، اور جب تک اس کا پڑوسی اس کی ایذا سے محفوظ نہیں وہ جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ یعنی دل اگر درست ہے تو اس کے اثرات زبان اور اعضاء پر نمایاں ہونے چاہییں،کیونکہ زبان دل کی ترجمان ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ پڑوسی بھی اس کی ایذارسانی سے محفوظ رہے، اگر عمل وکردار نہیں بدلا تو سمجھئے دل کا روگ ابھی درست نہیں ہوا، دل کی اسی اہمیت کی بنا پر دل کی درستی اور اس کی استقامت کی اور اس کے زیغ وضلالت محفوظ رہنے کی دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حق پرستوں کی یہ دعا ذکر کی ہے: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ
Flag Counter