Maktaba Wahhabi

163 - 190
’’جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگروہ صحیح تو سارا جسم صحیح اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ دل اگر مال و زر کی ہوس میں پھنسا ہوا ہے تو اس کا نتیجہ کساد بازاری ، دھوکہ، فریب،دغا،ملاوٹ اور ماپ تول میں کمی بیشی کی صورت میں نکلتا ہے اور حرام وحلال کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ دل اگر اقتدار اور جاہ وجلال میں پھنسا ہوا ہے، تو وہ انسان کو فرعون اور متکبر بنا دیتا ہے اور انسان درندوں سے بھی زیادہ وحشی اور خونخوار بن جاتا ہے، دل اگر ہوس پرستی کا شکار ہے تو انسان کو بے غیرت اور بے حیا بنا دیتا ہے اور اس کا اخلاق تباہ ہو جاتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ جسمِ انسانی میں دل کی مثال بادشاہ کی ہے اور جسم کے اعضاء وجوارح اس کی رعایا اور لشکر ہیں، اگر بادشاہ نیک اور صالح ہے تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر بادشاہ کا عمل وکردار درست نہیں تو رعایا بھی درست نہیں ہوگی۔ مشہور ضرب المثل ہے اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ۔ لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دورِ خلافت میں یہ بڑی تبدیلی آئی کہ مجلسوں میں لوگوں کا موضوع ذکر وتذکیر ، علم ونوافل اورطاعات بن گیا۔ جہاں بھی چار آدمی بیٹھتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے رات کو تمھارا پڑھنے کا کیا معمول ہے؟ تم نے کتناقرآنِ مجیدیاد کیا، تم قرآنِ مجید کب ختم کرو گے اور کب ختم کیا تھا، مہینے میں کتنے روزے رکھے تھے، جبکہ ولید کے زمانے میں لوگ جمع ہوتے تو عمارتوں اور طرزِ تعمیر کی گفتگو ہوتی، اس لیے کہ ولید کا یہ ذوق تھا ۔سلیمان کھانوں کا بڑا شائق تھا اس کے زمانے میں مجلسوں کا یہی موضوع ہوتا تھا۔(طبری ) مدائن جب فتح ہوا اور مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا، جس میں کسری کا تاج بھی تھا، تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یہ مالِ غنیمت دیکھ کر حیران اور ششدر ہو کر رہ گئے، اس کی بڑی دلچسپ تفصیل البدایہ وغیرہ میں موجود ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس مال کا خمس جب مدینۂ طیبہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے، اور فرمایا لوگوں نے امانت کا حق ادا کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امیر المؤمنین آپ عفیف ہیں تو آپ کی رعایا بھی عفیف ہے اگر آپ مال ہضم کر جانے والے ہوتے تو آپ کی رعایا بھی ایسی ہوتی۔ (البدایہ: ص۶۷
Flag Counter