Maktaba Wahhabi

161 - 190
ہے۔ اسی طرح﴿بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ﴾سے ایسا دل مراد ہے جو ہر طرف سے رخ پھیر کر اللہ وحدہ لا شریک کی طرف پلٹ گیاہو۔ پہلے جہنمیوں کے بارے میں ان کا ایک بڑا جرم یہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اللہ کے علاوہ اور معبود بنا لیے، مگر ان کے مقابلے میں جنتیوں کے اوصاف میں ہے کہ وہ ہر جائی نہیں ہوتا ،بلکہ صرف اللہ ہی کا ہو کر رہ جاتاہے۔آسودگی ہو یا تنگدستی، صحت ہو یا بیماری، آسائش وآرام ہو یا پریشانی ومصیبت ، بروبحر میں ہو یا فضاؤں میں، خوشی ہو یا غمی ہر حال میں وہ اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ علامہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا : کہ قلبِ منیب ،قلبِ سلیم کی مانند ہے، اور قلبِ سلیم وہ ہے جو شک اور شرک سے سالم ہے، جو شرک سے بچتا ہے، توحید خالص کو اختیار کرتا ہے اوراللہ کے ماسوا کو چھوڑ کراللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے وہ ﴿بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ﴾ہے۔بلکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ قلبِ سلیم تب ہے جب پانچ چیزوں سے بچتا ہے: (۱) شرک سے جو توحید کے متناقض ہے۔ (۲) بدعت سے جو سنت کے مخالف ہے ۔(۳) شہوت سے جو حکم وفرمانبرداری کے مخالف ہے۔(۴) غفلت سے جو ذکر کے متناقض ہے۔(۵) ہواپرستی سے جو تجرید واخلاص کے منافی ہے۔(الداء والدواء وغیرہ) حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مومن کا دل صحیح وسلیم اور منیب ہے جبکہ کافر ومنافق کا دل تو مریض ومریب ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف میں ہے کہ وہ’’منیب‘‘تھے(ھود:۷۵) اور ان کا دل قلبِ سلیم تھا(الصفٰت :۸۴) یہ قرآن بھی’’عبدِ منیب‘‘ کے لیے بصیرت ونصیحت ہے۔(سبا: ۹ ،قٓ:۸) اسی وصف سے رنگے ہوؤں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ أَنْ یَّعْبُدُوْہَا وَأَنَابُوْآ إِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی ﴾(الزمر:۱۷) ’’اور وہ لوگ جنھوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اوراللہ کی طرف رجوع کر لیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘ صرف مشکلات ومصائب میں اللہ کی طرف رجوع تو مشرکینِ عرب بھی کرتے
Flag Counter