لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت کی امید پر نہ بے عمل اور بے خوف ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی جباریت اور قہاریت سے نا امید ہونا چاہیے۔ ۳۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو تنہائی میں اللہ سے ڈر گیا۔ حدیث میں جن خوش نصیبوں کے بارے میں آیا کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے ان میں ایک وہ ہے:رَجُلٌ ذََکَرَ اللّٰہَ خَاِلیاً فَفَاضَتْ عَیْنَاہٗ۔(بخاری:۱۴۲۳) جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔ گویا ’’بالغیب‘‘ مَنْ خَشِیَ سے متعلق ہے۔ علامہ راغب اصفہانی رحمہ اللہ نے بھی مفردات القرآن میں یہاں غیب سے خلوت وتنہائی ہی مراد لی ہے۔ جیسے بعض حضرات نے﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ کے معنی بھی یہی کیے ہیں کہ وہ تنہائیوں میں بھی ایمان لاتے ہیں۔ یعنی ان منافقوں کی طرح نہیں جو اپنے شیاطین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں اور ہم پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ہنسی مذاق کرتے ہیں۔(مفردات وغیرہ) اسی طرح آیت﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَأَجْرٌ کَبِیْرٌ ﴾ ( الملک:۱۲)کے معنی بھی امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہی کیے ہیں کہ جو تنہائی میں اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ نیز سورۃ الانبیاء میں جو متقین کے بارے میں آیا ہے۔﴿الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَہُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ ﴾ ( الانبیاء:۴۹)اسے بھی اور اسی مفہوم کی دیگر آیات کو بھی اسی معنی میں لیتے ہیں۔ بہر حال مراداللہ کو بِن دیکھے یا تنہائیوں میں ہونا مراد ہو دونوں صورتوں میں اللہ سے ڈرنے والے یہاں مراد ہیں۔ ﴿بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ﴾یہ چوتھا وصف ہے۔منیب ،نوب سے ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کا بار بار لوٹ کر آنا۔ شہد کی مکھی کو بھی ’’نوب‘‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے چھتا کی طرف بار بار پلٹتی ہے۔اسی سے إنَابَۃُ إِلَی اللّٰہِ ہے یعنی اخلاص سے اللہ کی طرف لوٹنا ۔ گویا قلب منیب کی مثال قطب نما کی ہے وہ جہاں بھی پڑا ہو ، اس کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رخ کرتی ہے ، اسے اُلٹا سیدھا جیسے بھی ہلائیں اس کی سوئی قطب ہی کی طرف پلٹتی |