Maktaba Wahhabi

159 - 190
آپ کی بدولت بہت سے علاقے مفتوح ہوئے ہیں، فرمایا: نہ ان خدمات کا صلہ ملے نہ ہی ان کے بارے میں باز پرس ہو ،بس اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمادے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قبر پر کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی، حضرت ابو عبیدہبن جراح رضی اللہ عنہ ، جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کا امین قرار دیا ، فرمایا: کرتے کاش میں مینڈھا ہوتا میرے اہلِ خانہ مجھے ذبح کر کے میرا گوشت کھا لیتے اور میرا شوربا پی لیتے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے: کاش میں درخت ہوتا اور مجھے کاٹ دیا جاتا۔ امام احمد رحمہ اللہ کی کتاب الزہد وغیرہ میں یہ اور اسی نوعیت کے دیگر صحابۂ کرام کے بہت سے اقوال موجود ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے الداء والدواء (ص۵۳،۵۴) میں بھی ان اقوال کا ذکر کیا ہے۔ جس سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے باوجود ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ،قیامت کے روز جواب دہی کا احساس کس قدر تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ گ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی ہوئی بشارتوں سے بس امید کے سہارے زندگی نہیں گزاری ،بلکہ زہدوتقوی، علم وعمل، اخلاص وللہیت کی ایسی مثالیں قائم کیں جو قیامت تک امت کے لیے مینارۂ نور ہیں،مگر اس کے باوصف ان کے دل اللہ کی خشیت اور خوف سے معمور تھے۔یہی سلامتی کی راہ ہے اور یہی کامیابی کی کلید ہے۔ عمل واطاعت اور تقوی وتزکیہ کے بغیر جنت کی امید مؤمن کا شیوہ نہیں،بلکہ مغضوب وضالین کا طریقہ ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے﴿تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ﴾ فرمایا ہے کہ یہ سب ان کی خواہشات ہیں۔ (البقرہ:)دنیا کی کونسی چیز ہے جو محض تمناؤوں اور آرزووں کے سہارے حاصل ہوتی ہے،دنیا مردود کی جب یہ حیثیت ہے تو جنت جیسی قیمتی اور محبوب جگہ خالی امیدوں سے کیونکر حاصل ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا: مَنْ خَافَ اَدْلَجَ وَمَن اَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ اِلَّا اَنَّ سِلْعَۃَ اللّٰہِ غَالِیَہٌ اَلا اِنَّ سِلْعَۃَ اللّٰہِ الْجَنَّۃُ۔(ترمذی :۲۴۵۰،الصحیحہ :۹۵۴) ’’جو ڈر گیا وہ رات کو چل نکلا ، اور جو رات کو چلا اس نے منزل کو پا لیا، خبردار اللہ کا سامان بڑا مہنگا ہے، خبردار اللہ کا سامان جنت ہے۔‘‘
Flag Counter