Maktaba Wahhabi

158 - 190
۲۔ دوسری بات جو اس آیت سے نمایاں ہوتی ہے وہ یہ کہ یہ’’خشیت‘‘ رحمان سے ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بڑا مہربان ہے، تب بھی اللہ سے ڈرتا ہے، اس کی رحمانیت ورحیمیت کی امید پر بے خوف اور گناہوں پر جری نہیں ہوتا۔ ایمان ،خوف ورجا کے مابین ہے، صرف خوف تو اس کے ڈانڈ ے خارجیت اور رہبانیت سے جاملتے ہیں اور محض رجا تو اس کے ڈانڈے مرجئہ سے جاملتے ہیں۔ صراطِ مستقیم دونوں کے مابین ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھیں بارگاہ عالیہ سے’’رَضِیَ اللّٰہٗ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہٗ‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا ،اور انھیں جنت کی بشارت دی گئی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان پر اپنی رضا کا اظہار فرمایا،اور ان میں سے بعض کا نام لے لیکر جنت کی نوید سنائی۔ لیکن اس کے باوجود ان پر اللہ تعالیٰ کی خشیت اور خوف کا عالم یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ،جنھیں دربارِ رسالت سے صدیق کا لقب ملا تھا ،وہ روتے ہیں اور زبان کو پکڑ کر کھینچتے ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا تو کہا ٹھہریں اللہ تعالیٰ آپ کی بخشش فرمائے(یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟) انھوں نے فرمایا:اِنَّ ھٰذَا اَوْرَ دَنِیْ الْمَوَارِدَ ۔اس نے مجھے ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ (موطا: ص۳۸۷ وغیرہ) وہی ایک بار فرماتے ہیں:وددت انی شعرۃ فی جنب عبد مؤمن۔ ’’مجھے تو یہ پسند ہے کہ میں بندۂ مومن کا ایک بال ہوتا۔(الزھد لاحمد)کبھی فرماتے: کاش میں درخت یا سبزہ ہوتا اور جانور اسے کھا لیتے،اور کبھی فرماتے: اے پرندے تمھیں مبارک ہو، کاش میں تجھ جیسا ہوتا، تو درختوں پر بیٹھتا ہے، پھل کھاتا ہے اور اُڑ جاتا ہے، تیرا کوئی حساب کتاب نہیں۔(ابن ابی شیبہ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سورۃ الطور پڑھ رہے تھے۔ جب﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ﴾ پر پہنچے تو رونے لگے اتنا روئے کہ شدتِ خوف سے بیمار پڑگئے اور ساتھی ان کی عیادت کے لیے جاتے ۔ایک دفعہ زمین سے ایک تنکااٹھایا اور فرمایاکیا اچھا ہوتا کہ میں یہ تنکا ہوتا! کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔ وفات کے وقت بیٹے عبد اللہ سے فرمایا: میرا چہرا زمین سے لگا دو شاید اللہ مجھے معاف فرمادے اگر میری بخشش نہ ہوئی تو میری ماں کے لیے ویل ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا امیر المؤمنین آپ نے بہت سے شہربسائے ہیں اور
Flag Counter