کیونکہ وہ وعدہ خلاف نہیں، بلکہ سنن ابی داود کتاب السنۃ ،باب فی القدر، حاکم اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن فیروز ابن الدیلمی رضی اللہ عنہ سے ہے کہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: لَوْأَ نَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ عَذَّبَ أَ ھْلَ سَمٰاواتِہٖ وَأَھلَ أَرْضِہٖ عَذَّبَھُمْ وَھُوَ غَیْرُ ظَالِمٍ لَھُمْ، وَلَوْ رَحِمَھُمْ کَانَتْ رَحْمَتُہٗ خَیْراً لَّھُمْ مِنْ أَعمَالِھِمْ۔الخ(ابو داود مع العون :ص ۳۶۱ج۴) ’’کہ اگر اللہ تعالیٰ تمام زمین اور آسمان میں بسنے والوں کو عذاب دے تو وہ ظالم نہیں اور اگر ان پر رحم فرمائے تو رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہتر ہو گی۔‘‘ یعنی یہ رحمت ان کے اعمال کے بسبب نہیں،عملِ صالح تو بجائے خود اس کی رحمت ہے۔ عبد اللہ بن فیروز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا، تو انھوں نے بھی اسی طرح فرمایا، پھر میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا تو انھوں نے بھی اسی طرح فرمایا،پھر میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ہاں گیا تو انھوں نے بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنایا۔ گویا یہ روایت مرفوع ہے۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ نے جامع العلوم والحکم (ص۱۹۵حدیث نمبر۲۴) کے تحت فرمایا ہے کہ اس روایت کی سند میں وہب بن خالد ہے جو مشہور بالعلم نہیں،مگر ان کا یہ قول درست نہیں۔ وہب بن خالد کو امام ابوداود، ابن حبان اور العجلی رحمہم اللہ نے ثقہ کہا ہے۔ (تہذیب: ص۱۶۲ج۱۱) علامہ البانی رحمہ اللہ نے شرح عقیدہ طحاویہ(ص۴۵۰ رقم: الحدیث۶۲۹ ) میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اس کی تخریج انھوں نے امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ کی کتاب السنۃ رقم(۲۴۵) میں تفصیلاً کی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ساری مخلوق کا وہی مالک ہے وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کر سکتا ہے ۔ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے ،کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا کہ ایسا کیوں کیا؟ کوئی چیز اس پر لازم اور واجب نہیں،لیکن اس کا فیصلہ یہ ہے کہ میں نیک کو |