مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا۔(مسلم:۶۵۷۲) ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم کو حرام کیا ہے۔ اور تمھارے مابین بھی حرام قرار دیا ہے، لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘ جب اللہ گقادرِ مطلق ہونے کے باوجود ظلم نہیں کرتے تو انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اس سے باز رہے۔ ’’ظلم‘‘ اللہ کی شانِ رحمت ورأفت، عدل وانصاف اور حکمت کے منافی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے کسی بھی فعل کو ظلم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قیامت کا دن تو ’’یوم الدین‘‘ انصاف کا دن ہے، وہاں ظلم کیسا؟ اللہ تعالیٰ نہ ہی دنیا میں کسی پر ظلم کرتے ہیں نہ ہی آخرت میں کریں گے، اس کا ہر فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے، مگر اس کے فیصلے کی حکمت وہی جانتا ہے۔ یادرہے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ نیک جنت میں اور بد جہنم میں جائے گا، مگر ان میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ پر لازم اور واجب نہیں ہے۔ جیسا کہ بدعتی فرقہ معتزلہ کا عقیدہ ہے ،بلکہ اللہ تعالیٰ کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔﴿یَغْفِرُ لِمَن یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَآئُ﴾ (البقرۃ:۲۸۴)’’جسے چاہے بخش دے جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘ حضرت شیخ عبد القادر رحمہ اللہ اپنے مواعظ ’’الفتح الربانی‘‘ کی مجلس نمبر۶۱ میں فرماتے ہیں: ’’ جنت کا عمل طاعت ہی ہے اور دوزخ کا عمل معصیت ہے۔ اس کے باوجود اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے اگر چاہے تو عمل کے بغیر ہی کسی کو ثواب دیدے ، اور چاہے تو بُرے عمل کے بغیر کسی کو عذاب دیدے، یہ سارے فیصلے اس کے اختیار میں ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اس سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ باقی سب سے باز پرس ہو گی۔ اگر وہ انبیاء اور صالحین میں سے کسی کو دوزخ میں ڈال دے تب بھی وہ عادل ہے اور یہ حجت بالغہ ہو گی، ہمارے لیے لازم ہے کہ کہیں :حاکم بہر نوع سچا ہے ہم کوئی چون وچرا نہیں کر سکتے، ایسا ہو نا ممکن ہے اگر ایسا ہو تو یہ انصاف اور حق ہو گا، البتہ یہ ایسی بات ہے کہ وقوع میں نہیں آئے گی اور وہ ایسا کرے گا نہیں۔‘‘ |