فرمانبرداری کرے گا میرے انبیاء اور میری آیات کی پیروی کرے گا وہ کوئی خوف وخطرہ محسوس نہیں کرے گا۔‘‘(الاعراف:۳۵) ایک اور جگہ ارشادفرمایا: ’’اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی ڈر ہو گا نہ غم، جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے ان کے لیے دنیا میں خوشی ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘(یونس : ۶۲،۶۳،۶۴) میرا یہ فیصلہ سنا اور پہنچا دیا گیا ہے۔ میری باتیں سچی ہوتی ہیں وہ بدلی نہیں جاتیں۔ ہر ایک کو وہی کچھ ملے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ میں اپنے بندوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا، گناہ اور نافرمانی کے نتیجے میں سزا، ظلم نہیں انصاف کے عین مطابق ہے، نہ میں کسی بندے کا گناہ کے بغیرمؤاخذہ کرتا ہوں اور نہ ہی اس کے اچھے اعمال کے بدلے میں کسی قسم کی کمی کرتا ہوں، ظلم تو یہ ہے برے انجام سے خبردار کئے بغیر مؤاخذہ کیا جائے، جب میں نے پہلے سے تنبیہ کر دی تو اب اس کے مطابق مؤاخذہ ظلم نہیں ہے۔ یہاں’’ظلاّم‘‘ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس سے مراد مبالغۂ ظلم کی نفی نہیں،بلکہ نفسِ ظلم کی نفی ہے، جیسا کہ دوسرے مقامات پر آیا ہے ﴿إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئاً﴾ (یونس:۴۴)’’کہ اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتے ۔‘‘یا جیسے فرمایا: ﴿إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ﴾ (النساء:۴۰)’’اللہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتے۔‘‘ جس کا جتنا قصور ہے اسی نسبت سے اسے سزا ملے گی۔ایک مقام پر فرمایا:﴿وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْماً وَلَا ہَضْماً﴾(طہ:۱۲۲) ’’کہ جو مومن نیک عمل کرے گا اسے نہ ظلم کا ڈر ہو گا اور نہ ہی حق تلفی کا۔ ‘‘ایک اورمقام پر فرمایا: ﴿فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئاً وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾(یٰس:۵۴)’’آج کے دن کسی پر ظلم نہیں ہو گا، سب کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسا دنیا میں کرتے رہے۔‘‘ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت صحیح مسلم میں ہے جس کے ابتدائی الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا عِبَادِیْ إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ |