بس چالیس کا لفظ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ اس سے بھی بظاہر دو نفخوں ہی کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہو گا۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں تین نفخوں کا ذکر ہے ۔جسے ابو الشیخ نے العظمۃ (ص۸۲۲ج۳) میں مطولاً روایت کیا ہے علامہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے النھایہ (ص۲۲۴ج۱) اور علامہ القر طبی رحمہ اللہ نے التذکرۃ(ص۲۳۶)میں بھی اسے ذکر کیا ہے۔ شیخ رضاء اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے کتاب العظمہ کی تخریج میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ اور علامہ البانی رحمہ اللہ سے اس کی تضعیف بیان کی ہے، اس لیے تین نفخوں کے ثبوت میں یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ نے تو کہا ہے کہ چار نفخے ہوں گے مگر یہ بھی صحیح نہیں۔فتح الباری(ص ۳۹۸ج۱۱)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اور دیگر روایات کی بنا پر فرمایا ہے کہ دو ہی نفخے ہیں۔(فتح الباری :ص۳۷۰ج۱۱،ص۴۴۶ج۶) ﴿یَوْمُ الْوَعِیْدِ﴾وعید ، ’’وَعَدَ‘‘ سے ہے جو خیر وشر دونوں کے لیے قرآنِ مجید میں مستعمل ہے، مگر﴿الْوَعِیْدِ﴾ کا لفظ خاص طور پر شر، دھمکی اور تہدید کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہاں ان آیات میں اولین مقصود کفار ہیں اسی لیے یہاں لفظ﴿الْوَعِیْدِ﴾ یعنی عذاب کا دن ۔کفار اور نافرمانوں کے لیے آیا ہے اوریہ قیامت کے دن کا نام ہے،قرآنِ مجید میں قیامت کے مختلف احوال کی بنا پر مختلف نام آئے ہیں: ۱۔ القیامۃ: نام اس مناسبت سے ہے کہ اس روز لوگ پروردگارِ عالم کے روبرو کھڑے ہوں گے،چنانچہ ارشاد ہے: ﴿یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ (المطففین:۶) قیامت کا نام قرآن مجیدمیں( ۷۰)بار آیا ہے۔ ۲۔ الساعۃ: گھڑی ،وقت جیسا کہ فرمایا: ﴿إِنَّ السَّاعَۃَ لَآتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَا﴾ (المؤمن:۵۹) بے شک وہ وقت ضرور آنے والا ہے ۔ یہ لفظ قرآنِ مجید میں اڑتالیس (۴۸) مرتبہ آیا ہے اور قیامت کے معنی میں چالیس(۴۰) مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ |