Maktaba Wahhabi

97 - 315
تاکہ ان کی جو شرمگاہیں ڈھکی ہوئی ہیں وہ کھول دے۔ اور اس نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی نہ عطا ہو جائے اور اس نے ان دونوں سے قسمیں کھا کھا کر کہا میں تمھیں بہت خلوص کے ساتھ نصیحت کرتا ہوں۔‘‘ سورۃ طہٰ میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہے اور اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے جو تعبیر اختیار کی ہے اس کے مطابق بہکنے اور گمراہ ہونے کی پہلی ذمے داری حضرت آدم علیہ السلام پر عائد ہوتی ہے نہ کہ حضرت حوا پر اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کی سرزنش اور تنبیہ کا سارا رخ حضرت آدم علیہ السلام کی طرف ہے نہ کہ حوا کی طرف ۔ ملا حظہ ہو۔ "فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَـٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ ﴿١١٧﴾ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ ﴿١١٨﴾ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ ﴿١١٩﴾ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ ﴿١٢٠﴾ فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ " (طہٰ117۔ 121) ’’ پس ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے۔ دیکھو یہ تمھیں جنت سے نہ نکلوا دے، ورنہ تم بڑے بدبخت ہو گے۔ اس جنت میں تمہارے لیے یہ نعمت ہے کہ نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ ننگے ہو گے۔ نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائے گی۔ چنانچہ شیطان نے آدم کو بہلایا پھسلایا۔ اس نے کہا: اے آدم! کیا میں ہمیشگی والے درخت اور نہ ختم ہونیوالی بادشاہت کا تمہیں پتا نہ بتاؤں۔ چنانچہ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا تو ان کی شرمگاہیں کھل گئیں اور یہ دونوں اپنی شرمگاہوں پر
Flag Counter