Maktaba Wahhabi

75 - 315
"مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآَمَنْتُمْ" (النساء:147) ’’آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خوامخواہ سزادے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔‘‘ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک متعینہ مدت تک عذاب دےکر انھیں جہنم سے نکالے گا۔ اور جہنم کا وجودختم کردیاجائے گا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے بارے میں ہمیں بتایا ہے کہ اس کی رحمت ہر چیز، حتیٰ کہ اس کے غیظ وغضب پر بھی حاوی ہے۔ اور یہ کہ اس کی رحمت جس طرح مومنین کےلیے ہے اسی طرح کے کفار ومشرکین کے لیے بھی ہے۔ اس نے اپنے لیے غفور، رحیم اور رحمان جیسےناموں کاانتخاب کیا ہے جن میں رحمت ومغفرت کی صفت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس نے اپنے لیے کسی ایسے نام کا انتخاب نہیں کیا ہے، جس میں عذاب دینے اورانتقام لینے والے کی صفت پائی جاتی ہے۔ گویا عذاب دینا اور انتقام لینا اسکی دائمی صفت نہیں ہے بلکہ اس کاوقتی عمل ہے، جو ضرورت کی بنا پر ظاہر ہوتا ہے اور پھر ختم ہوجاتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تخلیق کسی عظیم غرض وغایت کے لیے کی ہے۔ انھیں عذاب دینے کے لیے نہیں ۔ بندوں کو عذاب دینابندوں کی تخلیق کا مقصد ہرگز نہیں ہے۔ چنانچہ یہ بات اس غرض و غایت کے منافی ہے کہ بندوں کوہمیشہ کےلیے عذاب میں مبتلا رکھا جائے۔ 6۔ وہ دلائل جو جہنم کی ابدیت کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں ان پر جرح اورتنقید کرتے ہوئے علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی دلیل جہنم کی ابدیت کو ثابت نہیں کرتی۔ مثلاً قرآن کی وہ تمام آیتیں جن میں جہنم کے لیے خلود کی خبر دی گئی ہے اورلوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خلود کامفہوم ایسی ہمیشگی ہےجوکبھی ختم نہیں ہوگی۔ حالانکہ لفظ خلودایسی ہمیشگی کے لیے نہیں استعمال ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ لفظ خلود کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فلاں چیز بہت زیادہ لمبے عرصے تک برقرار رہے گی۔ چنانچہ قرآن
Flag Counter