Maktaba Wahhabi

60 - 315
بھیجے گئے انبیاء ورسل کی شریعتیں ہمارے لیے بھی شریعت کی حیثیت رکھتی ہیں اورانھیں بطور دلیل پیش کیاجاتا ہے۔ جب کہ بعض کےنزدیک اگلی شریعتیں ہمارے لیے شریعت کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جن کی وجہ سے فقہاء کے درمیان فقہی مسائل میں اختلافات ہوئے ہیں۔ ان اسباب کے متعلق بہت ساری کتابیں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔ مثلاً علامہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’الانصاف فی اسباب الاختلاف‘‘ اور شیخ علی الخفیف کی ’’اسباب اختلاف الفقہاء‘‘ ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فقہی مسائل میں اختلافات کوئی مصیبت یاتفرقہ کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک شرعی ضرورت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ اختلافات ہمارے دین کی وسعت اور کشادگی کی واضح علامت ہے اور ہم بندوں کے حق میں رحمت ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو شرعی مسائل میں تنگی نہیں بلکہ کشادگی عطا کی ہے۔ انھیں کسی ایک رائے کا پابند نہیں بنایا ہے بلکہ انھیں یہ گنجائش عطا کی ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور اپنے علاقے اور اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سےکسی موزوں اور بہتر رائے پرعمل کریں۔ بالکل فطری بات ہے کہ کوئی فتویٰ کسی پرانے زمانے کے لحاظ سے موزوں اور مناسب ہو لیکن وہی فتویٰ آج کے بدلے ہوئے حالات اور گوناگوں ضرورتوں کے پیش نظر بالکل موزوں اورمناسب نہ ہو۔ اسی طرح عین ممکن ہے کہ کوئی فتویٰ کسی ملک کے لیے موزوں ہو لیکن دوسرے ملک کے لیے ناموزوں ہو کیوں کہ دونوں ملکوں کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب مصر میں مقیم تھے تو ان کے فتوے ان فتوؤں سے مختلف تھے جو انھوں نے عراق میں قیام کے دوران دئیے۔ کیوں کہ دونوں ملکوں کے حالات جدا جدا تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سال ایک فتویٰ دیتے اور اگلے سال اسی مسئلہ میں مختلف فتویٰ دیتے اور جب پوچھا جاتا تو جواب دیتے کہ کل کا فتویٰ کل کےحالات کے لحاظ سےتھا اور آج کافتویٰ
Flag Counter