Maktaba Wahhabi

299 - 315
معیار تسلیم کیا جائے عقل بھی یہی کہتی ہے کہ ایک کے مقابلہ میں دو لوگوں کی رائے زیادہ بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے بھی اسی معیار کو اختیار کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا: "لَوْ اجْتَمَعْتُمَا فِي مَشُورَةٍ مَا خَالَفْتُكُمَا " (مسند احمد) ’’تم دونوں اگر کسی مسئلہ پر ایک رائے ہو جاؤ تو میں تمہارے خلاف نہیں رہوں گا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقابلے میں دو کی رائے کو فوقیت دی تھی۔ چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے کو اختیار کیا جو اس بات کے حق میں تھی کہ شہر سے باہر نکل کر جنگ کی جائے جب کہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اس سے مختلف تھی وہ شہر کے اندر رہ کر جنگ کرنا چاہ رہے تھے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلیفہ وقت کے انتخاب کے لیے جس مجلس شوریٰ کا اعلان کیا تھا انھیں یہ تلقین کی تھیں کہ مجلس شوریٰ میں اکثریت جس کے حق میں ہو اسی کو خلیفہ وقت تسلیم کیا جائے۔ اسی طرح حدیث میں سواداعظم کے اتباع کی تلقین کی گئی ہے سواداعظم کا مطلب ہے لوگوں کی اکثریت۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو جمہوریت کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کو سب سے زیادہ نقصان ان ملکوں اور ان وقتوں میں پہنچاہے جب لوگوں کی آزادی سلب کر لی گئی۔ ان پر جابر و ظالم حکمران مسلط کر دئیے گئے۔ دعوت دین کے کاموں پر پابندی لگادی گئی اور عوام الناس کو اللہ کی مرضی کا نہیں بلکہ حکمرانوں کی مرضی کا پابند بنا دیا گیا اسلام کے لیے ڈکٹیٹر شپ ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ڈکٹیٹرشپ کے خلاف جنگ کی جائے اور جمہوریت بحال کرنے کے لیے تمام تر جدو جہد کی جائے کیونکہ اسی جمہوریت کے سائے میں اسلام پر عمل کرنے کی آزادی نصیب ہو سکتی ہے
Flag Counter