Maktaba Wahhabi

270 - 315
زنا کے نتیجے ہی میں قرارپایا ہو۔ کیونکہ زنا کے ذریعے وجود میں آنے والا بچہ بھی ایک جیتی جاگتی روح ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے کہ وہ زنا کی وجہ سے وجود میں آیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (وہ صحابیہ جنھوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا اور اس کا اعتراف بھی کر لیا تھا) کو ان کے اعتراف کے فوراً بعد رجم موت کی سزا نہیں دی تھی بلکہ انھیں حکم دیا کہ پہلے وہ بچے کو جنم دے لیں اور دو سال تک اسے دودھ پلائیں ۔ چنانچہ اس کے بعد انھیں رجم کی سزادی گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس بات کا حکم نہیں دیا کہ یہ حرام نطفہ کا بچہ ہے اس لیے اسے ساقط کرادیں، اس سلسلے میں میرا فتوی یہی ہے۔ البتہ بعض علمائے کرام کسی معقول عذر کی بنا پر چالیس دن سے پہلے پہلے اور بعض علمائے کرام ایک سوبیس دن سے پہلے پہلے اسقاط کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اس مدت میں حمل میں روح نہیں ہوتی ہے۔ گویا یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ سوال کرنے والی خواتین چاہیں تو اس فقہی اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حمل کو چالیس یا ایک سو بیس دن سے قبل اسقاط کراسکتی ہیں۔ اس کے لیے ان کے پاس ایک معقول عذربھی ہے۔ اور وہ عذریہ ہے کہ حالت جنگ میں ان کے ساتھ زنا بالجبرکیا گیا ہے اور اگر وہ چاہیں تو اس حمل کو ساقط نہ کرائیں اور بچے کو جنم دیں۔ کوئی شخص انہیں زبردستی اسقاط پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ اور جنم لینے والا بچہ مسلمان ہی کہلائے گا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ " (بخاری) ’’ہربچہ دین فطرت (اسلام ) پر جنم لیتا ہے۔‘‘ ولادت کے بعد اس بچے کی تعلیم و تربیت اور نان و نفقہ کی ذمے داری مسلم حکومت اور مسلم معاشرہ پر عائدہوتی ہے۔ یہ بات کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ ایسی مظلوم ماں اور بے سہارا بچے کو یونہی بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جائے۔
Flag Counter