Maktaba Wahhabi

27 - 315
معاملات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحے تک عمل کا حکم دیا ہے تو دینی معاملات میں مایوسی اور بے عملی کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟ اب آئیے لفظ غریب کے مفہوم کا تعین کریں یہ لفظ غربت سے ماخوذ ہے نہ کہ غرابت سے اور اس بات کی دلیل خود اس حدیث کا آخری جملہ ہے۔ "فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ" لفظ "غُرَبَاءِ" اس غریب کی جمع ہے جو غربت سے ماخوذ ہے۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام اجنبی بن کر آیا تھا اور پھر اجنبی بن جائے گا۔ پس خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اجنبی ہو ں گے وہ اجنبی اپنی شخصیت کی وجہ سے نہیں ہوں گےبلکہ اس اسلام کی وجہ سے ہو جائیں گے جو کہ خود اجنبی بن چکا ہو گا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ دور حاضر میں اور اس سے قبل بھی اسلام اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ لوگ اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں لوگ صحیح اسلام کو نہیں جانتے اور جو تھوڑے بہت لوگ صحیح اسلام کو جانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں وہ لوگ معاشرے میں نکواور اجنبی بن کر زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ بسااوقات انھیں معاشرے اور اصحاب اقتدار کی طرف سے ظلم و اذیت کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ دراصل مذکورہ حدیث میں بشارت انھیں مومنین صالحین کے لیے ہے جو ایسے دور میں بھی حق پر جمے رہتے ہیں جب کہ باطل کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اسلام معاشرے میں بے نام اجنبی اور باعث ذلت بن جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اجنبیت دائمی اور عالمی ہو گی ؟ یا وقتی اور علاقائی؟ میری اپنی رائے یہ ہے کہ یہ اجنبیت دائمی نہیں ہو گی۔ ایسا ہر گز نہیں ہو گا کہ اسلام پر جب اجنبیت کا دور آئے گا تو قیامت تک کے لیے برقرار رہے گی۔ قیامت تک اسلام اور مسلمان کمزور اور بے وقعت رہیں گے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس دور کے شروع ہو جانے کے بعد اسلام دنیا کے ہر گوشے میں اجنبی اور بے وقعت ہو کر رہ جائے گا بلکہ بعض علاقے اور ممالک ایسے بھی ہوں گے جہاں اسلام اور اہل اسلام باعزت اور طاقتور ہوں گے۔
Flag Counter