Maktaba Wahhabi

266 - 315
علم ہوتا تو وہ ہرگز ایسا فتوی نہ دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق چھ ہفتے بعد ہی نطفہ اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے جس میں اسے انسانی خصائص عطا ہوجاتے ہیں یہی وہ بات ہے جو مسلم شریف کی مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان دونوں احادیث اور علمائے کرام کی مختلف رایوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اصولی طور پر اسقاط حمل ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن اس حرمت کے کئی درجے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط حمل کی حرمت اتنی شدید نہیں ہے جتنی اس کی تخلیق شروع ہونے(بیالیس دن گزرنے)کے بعد اس کی حرمت ہے۔ روح پھونکنے کے بعد اسقاط حمل سراسر قتل اور بھیانک جرم ہے۔ صرف انتہائی ناگزیر حالت میں اس کی اجازت دی جا سکتی ہے اور وہ ناگزیر حالت یہ ہے کہ اسقاط نہ کرنے کی صورت میں ماں کی جان خطرے میں پڑجائے۔ جنین کے مقابلے میں ماں کی جان کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس لیے بچے کے مقابلے میں ماں کو بچانا زیادہ ضروری ہے۔ دور حاضر کے بعض علمائے کرام کے نزدیک انتہائی ناگزیر صورت یہ بھی ہے کہ جنین میں کچھ ایسا تخلیقی نقص یعنی پیدائشی عیب پیدا ہو جائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اس کے لیے مصیبت اور عذاب بن کر رہ جائے۔ الٹراساؤنڈ اور بعض دوسرے جدید آلات کے ذریعے پیدائش سے قبل پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچے میں اس طرح کا نقص پایا جاتا ہے۔ اگر یہ نقص ایسا ہے کہ پیدائش کے بعد ساری زندگی بچے کے لیے مصیبت بن کر رہ جائے تو ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہے، لیکن میں ان علمائے کرام کی اس رائے سے متفق نہیں ہوں اس لیے کہ: (1)جب چار مہینے گزرجائیں تو ان تخلیقی عیوب و نقائص کے باوجود جنین ایک زندہ انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا اسقاط اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ (2)طبی معائنے اور ڈاکٹروں کی اس رپورٹ کے باوجود کہ بچے میں تخلیقی نقص
Flag Counter