Maktaba Wahhabi

264 - 315
زندہ انسان کی سی ہے۔ اگریہ حرام کا بچہ ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ جنین کی اسی حیثیت کی وجہ سے اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ موت کی سزا پانے والی عورت اگر حاملہ ہے تو اسے اس وقت تک موت کی سزا نہیں دی جا سکتی جب تک وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور اس کے دودھ چھڑانے کی عمر نہ ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ اس شخص پر پوری دیت دینا لازم ہے جو کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس کی وجہ سے اس کا بچہ ساقط ہو جائے اور تھوڑی دیر زندہ رہ کر چل بسے۔ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ روح پھونکنے کے بعد جنین ایک مکمل انسان تصور کیا جائے گا۔ جنین کی اس حقیقت کی بنیاد پر تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ روح پھونکنے (بچے میں جان پڑنے) کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے اور کسی نے جان بوجھ کر ایسا کیا تو اسے قتل میں شمار کیا جائے گا۔ البتہ روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہائے کرام بہ وقت ضرورت اسقاط حمل کو جائز قراردیتے ہیں ۔ کیونکہ روح پھونکنے سے قبل جنین محض گوشت اور خون کا بے جان لوتھڑا ہے۔ لیکن وہ علمائے کرام جو عزل (مباشرت کے وقت منی کو باہر گرادینے )کو ناجائز قراردیتے ہیں ان کے نزدیک روح پھونکنے سے قبل بھی اسقاط حمل جائز نہیں ہے اور علمائے کرام جو عزل کو جائز قراردیتے ہیں ان کے نزدیک روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل جائز ہے۔ بشرطیکہ کہ معتبر اورمستند ڈاکٹروں کی ٹیم طبی بنیادوں پر اسقاط حمل کو ضروری قراردے ۔ عزل کو جائز قراردینے والے بعض علماء ایسے بھی ہیں جو روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل کو جائز نہیں قراردیتے ہیں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عزل اور اسقاط حمل میں بہت فرق ہے۔ اسقاط یہ ہے کہ بچے کے وجود میں آنے کے بعد اسے گرادیا جائے جب کہ عزل میں بچے کے وجود کا سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہوتا ہے۔ بعض علمائے کرام کے نزدیک روح پھونکنے سے قبل اسقاط حمل حرام تو نہیں لیکن
Flag Counter