Maktaba Wahhabi

196 - 315
آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔ وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے: 1۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ " (بخاری ومسلم) ’’ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘ 2۔ کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔ وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے: "لاوصية لوارث" (دارقطنی) ’’کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔‘‘ مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔ پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالی۔ اوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔ چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔ 3۔ کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔ مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
Flag Counter