Maktaba Wahhabi

166 - 315
کا حق قراردیتا ہے۔ لیکن یہ خواتین اپنے موقف پر مصر ہیں ۔ گزارش ہے کہ مہر کی حکمت اور غرض و غایت واضح کریں۔ جواب:۔ بلا شبہ جہالت اور کم علمی ایک بڑا مرض ہے اور اس سے بھی بڑا مرض یہ ہے کہ جاہل اپنے آپ کو عالم تصور کرے۔ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے نام نہاد روشن خیال لوگ پائے جاتے ہیں۔ جنھوں نے دنیوی علوم تو حاصل کر رکھے ہیں لیکن قرآن وسنت اور شریعت کے سلسلے میں ان کا علم صفر ہے۔ اس کے باوجود دینی معاملات و مسائل میں وہ اپنی جاہلانہ رائے دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کا علم نہ ہونے کے باوجود اپنی رائے کو برحق اور قرآن و سنت کے مطابق قراردیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جو فقط نام کے مسلمان ہیں اور ان کے کام غیر مسلموں جیسے ہیں۔ چونکہ اسلام اور اسلامی احکام میں انہیں کوئی خاص دلچسپی اور رغبت نہیں ہے اس لیے غیر مسلموں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ لوگ بہت سارے شرعی احکام کو بدل دینا چاہتے ہیں بلکہ سرے سے ان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی چکاچوندکی وجہ سے اگر انھیں قرآن وسنت کے بعض احکام درست نہیں معلوم ہوتے تو انھیں چاہیے کہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآن و سنت سے اپنی برات کا اعلان کردیں اور لوگوں کوبتا دیں کہ اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تاکہ مسلم قوم ان کے تئیں دھوکے میں نہ رہے۔ مہر کی حیثیت قرآن وسنت سے ثابت ہے اور اس پر تمام امت کا مکمل اتفاق ہے۔ مہر ایک ایسی حقیقت ہے جسے سب جانتے اور قبول کرتے ہیں۔ البتہ اس کی حکمت و مصلحت سے بعض لوگ ناواقف ہیں اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے۔ (1)مہر عورت کے لیے باعث ذلت نہیں بلکہ اس کے برعکس باعث عزت و شرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں پر فرض کیا ہے کہ نکاح کے وقت عورتوں کو مہر ادا کریں ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت ایک پسندیدہ چیز ہے جسے پانے کے لیے مرد کوشاں اور
Flag Counter