Maktaba Wahhabi

140 - 315
گود میں سر رکھ کر سو گئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مہمان اپنے میزبان کے گھر میں اس کی اجازت سے قیلولہ کر سکتا ہے اور یہ کہ عورت اپنے محرم اور اجنبی مہمان کی خدمت کر سکتی ہے۔ اسے کھانا پانی دے سکتی ہے اور اس کے آرام کا انتظام کر سکتی ہے۔ چونکہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی ہے اس لیے عام طور پر یہ حدیث پڑھ کر وہ لوگ بڑی مشکل میں پڑجاتے ہیں جو عورتوں کے معاملے میں ذرا سخت گیر واقع ہوئے ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غیر محرم عورت کی گود میں سر کیسے رکھا اور اپنے بالوں میں ان کی انگلیوں سے کنگھا کروایا اور پھر سوگئے۔ جان چھڑانے کے لیے یہ لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں یا خالہ تھیں۔ اور بعض یہ تاویل کرتے ہیں کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا دوسروں کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے۔ بعض یہ تاویل کرتے ہیں کہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جذبات پر بہت زیادہ قابو تھا اس لیے آپ کے لیے یہ عمل جائز تھا یہ تمام تاویلیں ناقابل قبول ہیں۔ چنانچہ علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ، قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگ علماء ان تاویلوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُم حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں یا خالہ ہونا کسی بھی حوالہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھا۔ کیوں کہ اس عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح دلیل چاہیے لیکن اس کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے ہم محض اپنی مرضی سے کسی عمل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں کر سکتے۔ اور یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نفسانی خواہشات پر بہت زیادہ قابوتھا اس لیے یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھا۔ کیوں کہ خواہشوں پر قابو پانے کی وجہ سے کوئی ناجائز عمل جائز نہیں ہو سکتا ہے اور اس لیے بھی کہ اگر خواہشات پر قابو پانے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ عمل جائز تھا تو پھر یہ عمل ان کی
Flag Counter