راشدہ کے زمانے میں 22 لاکھ مربع میل تک بڑھ چکی تھی اور پہلی صدی ہجری کے اختتام سے پہلے پہلے پینتالیس لاکھ مربع میل کا رقبہ مسلمانوں کی ریاست میں شامل تھا اور یہ بات پیش نظر رہے کہ دنیا کا تہذیبی جغرافیہ پہلی صدی ہجری کے اختتام تک پینتالیس لاکھ کے مربع میل سےزیادہ بھی نہیں تھا ابھی امریکہ دریافت نہیں ہواتھا آسٹریلیا میں کوئی آبادی نہیں تھی اگرچہ جزیہ اور خراج کی جوصورتیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور ان کا ایک باقاعدہ فلاسفی ہے یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک علاقے میں جب وہاں کے لوگوں کی کسی وجہ سے ان کے حقوق کی نگہداشت نہیں کی جاسکتی تھی تو ان سے جزیہ لینا معاف کردیاجب ہم اسلامی ریاست آپ کے حقوق کا دفاع نہیں کرسکتی تو جزیہ بھی آپ سے نہیں لے سکتی اس لحاظ سے یہ جزیہ جس کےبارے میں بہت سارے سوالات بھی تاریخ کے اندر اُٹھائے گئے ہیں یہ جزیہ دراصل اسلامی بیت المال کا مال غنیمت نہیں بلکہ وہ انتظامی ایکس پینڈیچر تھا جو غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے شہری اور ریاستی زندگی کو محفوظ اور ان کی عفت وعزت اور مال وجان کو حفاظت دینے کے لیے استعمال ہوتاتھا اس لحاظ سے وہ جاری و ساری تھا،یہ ایک امتیازی شان تھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی کہ ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر بیت المال کا تصور موجود ہے ،اس اسلامی ریاست کےاندر لوگ بھیک منگوں اور گداگروں کی طرح آتے نہیں تھے بلکہ اسلامی ریاست کا بیت المال کا شعبہ گھر بیٹھے وہ رقوم اُنھیں پہنچایا کرتاتھا اس لحاظ سےیہ ایک امتیازی شان جو تھی اور یہ امتیازی شان بیت المال کی صرف عہد خلافت راشدہ تک قائم نہیں رہی بلکہ دنیاکے اندر اسلامی جو امہ ہے اس کا جو اسلامک بلاک ہے اس کے زوال تک ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی یہ فیسکل پالیسی جو تھی ان کے معاشرے کے اندر رائج رہی میں ایک دفعہ پھر آپ کوتوجہ دلانا چاہوں گا کہ مختلف زمانوں کے اندرمختلف جو اسلامی
|