انسانی مجبوریوں کا لحاظ
اسلام نے حرام کے معاملہ میں سخت احکامات دئیے ہیں لیکن اس نے انسانی زندگی کی ضرورتوں کی طرف سے بے اعتنائی برتی اور انسانی کمزوری کا بھی پورا لحاظ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اُس نے اس بات کو جائز کردیاہے کہ ایک مسلمان شدید ضرورت کے پیش نظر اپنی جان بچانے کے لیے بقدر ضرورت حرام چیز کھالے۔اللہ جل جلالہ نے مردار،خون اورسور کے گوشت کی حرمت کا حکم دینے کے بعد فرمایا ہے:
﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾[1]
”تو جو شخص مجبور ہوجائے اور وہ اس کا خواہشمند اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہوتو اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ جل جلالہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“
یہ حکم دیگر چار سورتوں میں بھی آیا ہے جس کا مفہوم ایک ہی ہے۔
لیکن خیال رہے کہ ان آیات نے مضطر کے لیے غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ کی قید لگائی ہے جس کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ حالت مجبوری میں حرام سے فائدہ اٹھانے والا حرام شئے کی لذت کاطالب نہ ہو اور نہ ہی فائدہ اٹھانے کے معاملہ میں حدِضرورت سے تجاوز کرنےوالا ہو اس شرط سے علماء نے ایک اصول اخذ کیاہے اور وہ یہ ہے کہ ضرورت اپنادائرہ خود متعین کرتی ہے۔
انسان کو اگرچہ کسی مجبوری کے آگے جھکنا پڑتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح مجبوری کے حوالے کردے اور اپنے نفس کی زِمام
|