اسلامی بینکوں کے ڈیپازٹ کا شرعی حکم
اسلامی بینکاری میں ایسا طریقہ اختیار کرناضروری ہے جس میں سود لازم نہ آئے چنانچہ ڈیپازیٹرز کے ساتھ بینکوں کے معاہدے میں قرضے کے بجائے شرکت،مضاربت یاوکالت کے معاہدے کئے جانے ضروری ہیں تاکہ جو رقم ڈیپازیٹرز بینک میں جمع کرائیں وہ مذکورہ شرعی اصولوں کے تحت ھو اور اس پر نفع سود کے حکم میں نہ ہو۔
اس کے بعد بینک وہ پیسہ(کھاتہ داروں کے پیسے) مختلف قسم کے جائز کاروبار میں لگاتے ہیں ،جائز کاروبار سے مراد ہر وہ کاروبار یاتجارت ہے جو شرعاً حلال ہو۔مثلاً جائز اشیاء کی خریدوفروخت (مرابحہ،مساومہ) کرایہ داری(Leasing)بیع سلم،تعمیری ٹھیکہ(استصناع) مزارعت،شرکت(پارٹنر شپ) مضاربت وغیرہ۔اسلامی بینک ان تجارتوں سے جو نفع حاصل کرتے ہیں اس میں سے وہ انتظامی اُجرت یانفع (Management share/fee) رکھ کر باقی ڈیپازیٹرز(کھاتہ داروں) کو تقسیم کردیتا ہے،لہٰذااگربینک زیادہ نفع کماتا ہے تو وہ کھاتہ داروں کو زیادہ نفع دیتا ہے اور اگر کم کماتا ہے تو کم نفع دیتا ہے۔
کیا سود کے بغیر بینکاری ناممکن ہے؟
اس ضمن میں محترم جناب پروفیسر عبدالجبار شاکر صاحب( مرحوم) کا پیش کردہ لیکچر قارئین کے لیے ایک نادر اور پر مغز تحفہ ہے جو فاران کلب کراچی میں۔۔۔1997ء میں دیا گیا۔ہم یہاں لیکچر کا خلاصہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
(خطبہ مسنونہ کے بعد) امابعد!
یہ موضوع ملت اسلامیہ کا سب سے زیادہ فکر انگیز اور تشویشناک موضوع ہے ،مجھے احساس ہے کہ اس موضوع کی اطراف اور اس کی جہات جس قدر متعدد ہیں
|