شیطان لے لیتا ہے برکت اٹھ جاتی ہے اور کاروبار میں خسارے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔[1]
ایسی صورت میں شریعت نے یہی ہدایت دی ہے کہ اگر ایک فریق خیانت کا مرتکب ہوتا ہے تو دوسرا یا دوسرے درگزر سے کام لیں ہوسکتا ہے کہ آئندہ چل کر معاملہ درست ہوجائے یا ایسا خیال ہی غلط ثابت ہو،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَكَ))[2]
”جس شخص نے تیرے پاس امانت رکھی ہے اس کی امانت اداکراور جو کوئی تجھ سے خیانت کرے تو اس سے خیانت نہ کر“
شرکت ومشارکہ میں نفع ونقصان کا تناسب؟
شراکت ومشارکہ میں دویا دو سے زیادہ افراد جب مل کر کام کرتے ہیں اور اپنا سرمایا بھی لگاتے ہیں تو وہ نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ مضاربہ میں تمام ترنقصان رب المال کا ہوتا ہے اور مضارب صرف اپنی محنت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جبکہ مشارکہ میں نفع تو کسی بھی ایسی نسبت سے تقسیم کیا جاسکتا ہے جس پر پہلے سے سارے فریق اتفاق کرلیں لیکن اگر نقصان ہوجائے تو سب شرکاء کے سرمایہ کےتناسب سے برداشت کیا جائےگا۔
|