بیع سلم تجارتی بنیادوں پر
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیع سلم کی اجازت صرف کاشتکاروں اور مینو فیکچرز کے لیے ہے یہ خیال محتاج دلیل ہے، اس لیے کہ کسی بھی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صراحت ثابت نہیں ہے کہ سلم صرف کاشتکاروں اور صنعتکاروں کے لیے مخصوص ہے اور تاجر حضرات اس سے استفادہ نہیں کر سکتے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تجارکے لیے جواز کا اشارہ دیا ہے چنانچہ انھوں نے بخاری شریف میں (بَابُ السَّلَمِ إِلَى مَنْ لَيْسَ عِنْدَهُ أَصْلٌ)کا باب باندھ کر یہ استنباط کیا ہے کہ تجار بھی سلم کر سکتے ہیں کیونکہ کاشتکاروں اور صنعتکاروں کے پاس تو مبیع کی اصل موجود ہوتی ہے مثلاً زمین ہے، فصل ہے، فیکٹری ہے، اور فیکٹری میں موجود خام مال ہے یہ اصل ہیں جبکہ بے اصل تو صرف تاجر یعنی سپلائر ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ باب کے تحت جو حدیث لائے ہیں وہ درج ذیل ہے:
"قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ كُنَّا نُسْلِفُ نَبِيطَ أَهْلِ الشَّأْمِ فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّيْتِ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ قُلْتُ إِلَى مَنْ كَانَ أَصْلُهُ عِنْدَهُ قَالَ مَا كُنَّ نَسْأَلُهُمْ عَنْ ذَلِكَ."[1]
”حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم شام کے کاشتکاروں کے ساتھ گندم ،جو اور تیل میں متعین پیمانے اور متعین مدت کے لیے سلم کا معاملہ کرتے تھے: محمد بن ابی مجالد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے پوچھا کیا ان سے جن کے پاس ان چیزوں کی اصل ہوتی تھی؟اُنھوں نے فرمایا ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے تھے۔“
|