یعنی جس کا سرمایہ دس فیصد ہے وہ نقصان کے دس فیصد کی حد تک ذمہ دار ہوگا اور جس کا سرمایہ 30 فیصد ہے وہ نقصان کے 30 فیصد کی حد تک ذمہ دار ہوگا اور جس کاسرمایہ 60 فیصد ہے وہ 60 فیصد کی حد تک نقصان کا ذمہ دار ہوگا اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں اپنے اپنے محل پر آئے گی۔
مشارکہ ومشترکہ سے متعلق سلف اور خلف کا فرق
فقہ کی قدیم اور روایتی کتابوں میں لفظ مشارکہ کو شرکت کی کسی خاص قسم یا کسی مخصوص معاملہ کے لیے استعمال نہیں کیا گیا،بلکہ ان میں مشارکہ اور شرکت ایک ہی معنی میں استعمال ہوتا رہا ہے،
چنانچہ فقہ کی ان کتب میں مشارکہ کا وہ مفہوم نہیں ملتا جسے یہاں ذکر کرنا مقصود ہے اسی طرح عصر حاضر میں شرکت کے موضوع پر جو کتابیں لکھی جاچکی ہیں چونکہ وہ بھی درحقیقت فقہ کی قدیم کتابوں سے ماخوذ ہیں اس لیے ان میں بھی مشارکہ کا تصور شرکت کی کسی نئی قسم کے طور پر ملنا مشکل ہے البتہ جدید معاشی محققین ”مشارکہ“ کی اصطلاح شرکت کی ایک نئی قسم کے طور پر استعمال کررہے ہیں،جس کےذریعہ Financing & Investment(سرمایہ) کے ایسے طریقے متعارف کرانا مقصود ہیں جو سُود کے بدل کے طور پر بھی پیش کیے جاسکیں اور ان کے ذریعہ نفع بھی کمایا جاسکے اور وہ شریعت کی کسی شق سے متصادم بھی نہ ہوں۔
© سلف کے نزدیک شرکۃ کی صرف دوہی اقسام متعارف ہیں:
1۔ شرکۃ الملک Joint ownership))
2۔ شرکۃ العقد Joint venture))
|